Advertisement

شوگر ملز مالکان کی مخالفت کے باوجود مزید ایک لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا ٹینڈر جاری

پاکستان میں چینی کے بحران اور اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے پیش نظر حکومت نے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے مزید ایک لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کے لیے نیا ٹینڈر جاری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک کے مختلف شہروں میں چینی کی قلت دیکھی جا رہی ہے اور عام صارفین بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ دوسری جانب، شوگر ملز مالکان کی تنظیموں نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ مقامی ملوں کے پاس پہلے ہی وافر مقدار میں چینی موجود ہے، اس لیے درآمد غیر ضروری اور ملکی صنعت کے مفاد کے خلاف ہے۔

Advertisement

حکومت کا مؤقف

حکومتی ذرائع کے مطابق، اس وقت مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت عام صارفین کی پہنچ سے باہر جا رہی ہے۔ کئی شہروں میں فی کلو چینی کی قیمت 150 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی منڈی سے درآمد کی جائے تاکہ مقامی سطح پر قیمتوں کو نیچے لایا جا سکے۔
وزارتِ صنعت و پیداوار کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ عالمی منڈی میں چینی کی قیمتیں نسبتاً کم ہیں، اور اگر فوری طور پر ٹینڈر کے ذریعے درآمد کی جاتی ہے تو مقامی صارفین کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ اس اقدام کا مقصد کسی خاص طبقے کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ عوام کو ریلیف دینا ہے۔

شوگر ملز مالکان کا ردِعمل

دوسری طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق، مقامی ملوں کے پاس اس وقت لاکھوں ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں جنہیں حکومت یا تو بروقت خریدنے میں ناکام رہی یا جان بوجھ کر درآمدات کا راستہ کھولنے کے لیے نظر انداز کیا گیا۔
مل مالکان کا کہنا ہے کہ درآمدات سے نہ صرف مقامی صنعت متاثر ہوگی بلکہ کسانوں کو بھی نقصان پہنچے گا کیونکہ گنے کی خریداری اور مقامی پیداوار کے فروغ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ درآمد کے بجائے مقامی چینی کے ذخائر کو ریلیز کرے اور مارکیٹ میں شفافیت لائے تاکہ قیمتوں پر قابو پایا جا سکے۔

Also read :پنجاب سے کراچی لاکر 2 لڑکیوں کو فروخت کرنے کی کوشش ناکام

عوامی ردِعمل اور صارفین کی مشکلات

عام صارفین کے لیے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں گزشتہ کئی ماہ سے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ گھریلو خواتین اور دکاندار شکایت کرتے ہیں کہ چینی کے بغیر روزمرہ کی ضروریات پوری کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ چھوٹے کاروباری حضرات جیسے بیکری مالکان اور مشروبات تیار کرنے والے بھی متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ چینی ان کی پیداوار کا بنیادی جزو ہے۔
عوامی حلقوں نے حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر درآمد سے قیمتوں میں کمی آتی ہے تو یہ اقدام بالکل درست ہے۔ تاہم، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمد وقتی طور پر قیمتیں کم کر سکتی ہے مگر یہ دیرپا حل نہیں۔

ماہرین کی رائے

معاشی ماہرین کے مطابق، پاکستان میں چینی کا بحران صرف پیداوار کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ انتظامی کمزوریوں اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر حکومت شفاف پالیسی اپنائے، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور مقامی ملوں کی پیداوار کا درست حساب رکھے تو بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ عالمی منڈی پر انحصار ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا ہے کیونکہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کسی بھی وقت حکومت کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔ اس لیے مقامی سطح پر زراعت اور صنعت کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں درآمد کی ضرورت پیش نہ آئے۔

ممکنہ اثرات

اگر مزید ایک لاکھ ٹن چینی درآمد کی جاتی ہے تو قلیل مدت میں صارفین کو ریلیف مل سکتا ہے اور مارکیٹ میں قیمتیں کچھ نیچے آسکتی ہیں۔ لیکن طویل مدت میں یہ مقامی صنعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ مل مالکان اپنی پیداوار کم کر دیں گے اور کسان گنے کی کاشت میں دلچسپی کھو بیٹھیں گے۔ اس طرح ملک مزید درآمدات پر انحصار کرنے لگے گا۔
یہ صورتحال حکومت کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہے، جس میں اسے عوامی ریلیف اور مقامی صنعت کے تحفظ کے درمیان توازن قائم رکھنا ہوگا۔

نتیجہ

حکومت کے اس فیصلے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا عوام کو ریلیف دینے کے لیے فوری درآمدات کی جائیں یا مقامی صنعت کے تحفظ کو ترجیح دی جائے۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ فیصلہ کس حد تک مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ فی الحال عوام یہی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ چینی کی قیمتوں میں کمی واقع ہو اور ان کے روزمرہ کے اخراجات کچھ کم ہوں۔


ڈسکلیمر: یہاں پیش کی گئی خبروں کی معلومات دستیاب رپورٹس اور معتبر ذرائع پر مبنی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین اپ ڈیٹس کے لیے سرکاری خبر رساں اداروں سے بھی تصدیق کریں۔

Leave a Comment