پاکستان کرکٹ میں ماضی کے عظیم آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی ہمیشہ سے اپنے بے باک اور دوٹوک بیانات کے باعث خبروں میں رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ایسا بیان دیا جس نے نہ صرف شائقین بلکہ ماہرینِ کرکٹ کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آفریدی نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہی کھلاڑی میدان میں اصل مقام بناتا ہے جو ڈومیسٹک کرکٹ میں محنت کر کے آگے آتا ہے اور پسینے کی کمائی سے اپنی جگہ بناتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ سخت محنت، صبر اور مستقل مزاجی کے بعد بین الاقوامی سطح پر خود کو منوائے۔
ڈومیسٹک کرکٹ کی اہمیت
شاہد آفریدی کا ماننا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کسی بھی کھلاڑی کی اصل تربیت گاہ ہوتی ہے۔ جو کھلاڑی اس مرحلے پر مشکلات اور دباؤ کو برداشت کر لیتے ہیں، وہی بین الاقوامی سطح پر کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں رگڑا کھانے والے اور اپنی خامیوں پر قابو پانے والے کھلاڑی ہی آگے چل کر جسپریت بمراہ جیسے ورلڈ کلاس بولرز کو میدان میں زیر کرتے ہیں۔
یہ بیان ایک بار پھر اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ محض شہرت، تعلقات یا وقتی کارکردگی کسی کھلاڑی کو بڑا نہیں بناتی، بلکہ طویل محنت اور میدان میں تسلسل ہی اصل پیمانہ ہے۔
Also read :اے سی سی اجلاس: بھارتی بورڈ نے ٹرافی مانگ لی، محسن نقوی کا دو ٹوک مؤقف
بمراہ جیسے بولرز کے خلاف پرفارمنس
آفریدی نے خاص طور پر بھارتی فاسٹ بولر جسپریت بمراہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بولرز کے خلاف صرف وہی بیٹسمین کامیاب ہو سکتے ہیں جنہوں نے ڈومیسٹک سطح پر اپنی تکنیک اور ہمت کو آزمایا ہو۔ کرکٹ کے شائقین بخوبی جانتے ہیں کہ بمراہ کا سامنا کرنا کسی بھی بیٹسمین کے لیے آسان کام نہیں، مگر وہی کھلاڑی جو محنت کے مراحل طے کرتا ہے، اس چیلنج سے نکل سکتا ہے۔
پسینہ، خاک اور اصل کرکٹر
آفریدی کا کہنا تھا کہ “محنت، پسینہ اور گراؤنڈ کی خاک کھانے کے بعد ہی کوئی اصل پلئیر بنتا ہے۔” یہ جملہ ان کے فلسفہ کرکٹ کی جھلک پیش کرتا ہے کہ صرف میدان میں گزرنے والے لمحات اور کھیل کے دوران پیش آنے والی مشکلات ہی کھلاڑی کو مضبوط اور مستقل مزاج بناتی ہیں۔
سلمان علی آغا کی کپتانی پر سوال
شاہد آفریدی نے اپنے بیان میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ایک ٹیسٹ کرکٹر سلمان علی آغا کو کپتان کس بنیاد پر بنایا گیا۔ ان کے اس بیان سے کرکٹ بورڈ کے انتخابی فیصلوں پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب آفریدی نے بورڈ کی حکمت عملی پر تنقید کی ہو۔ ماضی میں بھی وہ کئی بار اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ کھلاڑیوں کو صرف میرٹ کی بنیاد پر منتخب کیا جانا چاہیے۔
کرکٹ میں شور شرابہ یا پرفارمنس؟
شاہد آفریدی نے واضح کیا کہ “سچ یہی ہے، شور شرابے سے نہیں، گراؤنڈ میں پرفارمنس سے مقام بنتا ہے۔” یہ جملہ نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ نوجوان نسل کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ اصل کامیابی دکھاوے یا زبانی دعوؤں سے نہیں، بلکہ عملی محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ کرکٹ میں کامیابی کا معیار ہمیشہ رنز، وکٹیں اور ٹیم کے لیے کارآمد کارکردگی رہی ہے، نہ کہ شور یا سوشل میڈیا پر موجودگی۔
آفریدی کے بیان پر ردِعمل
شاہد آفریدی کے اس بیان کے بعد کرکٹ حلقوں میں مختلف ردِعمل سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگ ان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعی کھلاڑی کو ڈومیسٹک کرکٹ کے سخت مراحل سے گزرنا چاہیے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کے قابل ہو سکے۔ دوسری جانب کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے کھلاڑیوں کو بھی مواقع ملنے چاہئیں تاکہ وہ اپنے ٹیلنٹ کو سامنے لا سکیں۔
پاکستانی کرکٹ کا مستقبل اور نوجوان کھلاڑی
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان کرکٹ ہمیشہ نئے ٹیلنٹ سے مالا مال رہی ہے۔ ہر دور میں ایسے نوجوان سامنے آتے ہیں جو محنت اور جذبے کے ساتھ کھیل میں نام پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ تسلسل اور محنت کے بغیر کوئی بھی ٹیلنٹ ضائع ہو سکتا ہے۔ شاہد آفریدی کا بیان اسی پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ اگر کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں پختہ کار نہ ہو تو بین الاقوامی کرکٹ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
نتیجہ
آفریدی کے حالیہ بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ جو کھلاڑی اس جدوجہد کو دل سے اپناتا ہے، وہی میدان میں تاریخ رقم کرتا ہے۔ پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یہ ایک سبق ہے کہ شور شرابے یا تعلقات سے نہیں، بلکہ میدان میں کارکردگی سے مقام بنایا جا سکتا ہے۔ شاہد آفریدی کا دبنگ بیان دراصل ایک آئینہ ہے جو ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ کرکٹ میں اصل مقام صرف محنت اور مستقل مزاجی سے حاصل ہوتا ہے۔
ڈسکلیمر: اس خبر میں شامل معلومات دستیاب رپورٹس اور قابلِ اعتماد ذرائع پر مبنی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین اپ ڈیٹس کے لیے مستند اور سرکاری نیوز ذرائع سے تصدیق ضرور کریں۔