حالیہ دنوں میں دبئی میں ہونے والے ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے اجلاس نے ایک بار پھر پاک-بھارت کرکٹ تعلقات کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ اجلاس میں مختلف انتظامی امور کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے مابین کئی اہم نکات پر بات ہوئی۔ اس دوران ایک دلچسپ اور قدرے غیر متوقع صورتحال بھی سامنے آئی، جب بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے نمائندوں نے ایشیا کپ کی ٹرافی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ اس پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے نہایت دو ٹوک انداز میں جواب دیا کہ “ٹرافی اگر لینی ہے تو کپتان دفتر آ کر مجھ سے لے لیں۔”
یہ جملہ محض طنزیہ نہیں بلکہ ایک بڑے پیغام کا حامل ہے، جو پاک-بھارت کرکٹ تعلقات کی نزاکت کو اجاگر کرتا ہے۔
اجلاس کا پس منظر
ایشین کرکٹ کونسل ایشیا کی کرکٹ بورڈز پر مشتمل ایک تنظیم ہے جو خطے میں ٹورنامنٹس، ترقیاتی منصوبے اور مالی امور کو دیکھتی ہے۔ حالیہ اجلاس میں بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان اور دیگر رکن ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس کا مقصد 2025 اور اس کے بعد کے کرکٹ ایونٹس کی میزبانی، فنانشل ڈھانچے اور کرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرامز پر گفتگو کرنا تھا۔
تاہم اصل توجہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ تعلقات پر مرکوز رہی۔ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تناؤ نے کرکٹ کے میدان میں بھی رکاوٹیں پیدا کیں۔ باہمی سیریز کا نہ ہونا اور ایونٹس کی میزبانی پر اختلافات دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا چکے ہیں۔
بھارتی بورڈ کا مطالبہ
اجلاس کے دوران بھارتی بورڈ کے نمائندوں نے یہ مؤقف اپنایا کہ چونکہ ایشیا کپ میں بھارت نے بہتر کارکردگی دکھائی اور ٹورنامنٹ ان کے نام رہا، اس لیے ٹرافی انہیں جلد از جلد حوالے کی جانی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرکٹ کی روایت کے مطابق جیتنے والے کو ٹرافی فوری طور پر ملنی چاہیے تاکہ وہ اسے اپنے ملک میں لے جا سکیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ ٹرافی کی حوالگی میں تاخیر کیوں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق انتظامی معاملات اور دبئی سے ٹرافی کی ترسیل میں کچھ مسائل سامنے آئے تھے۔
محسن نقوی کا دو ٹوک جواب
بھارتی بورڈ کی اس ڈیمانڈ پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے نہایت صاف اور دو ٹوک مؤقف اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ “اگر ٹرافی مانگ رہے ہیں تو کپتان دفتر آ کر خود لے جائیں۔” ان کا یہ بیان نہ صرف بھارت کو واضح پیغام دینے کے مترادف تھا بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اب دفاعی پوزیشن کے بجائے بااعتماد انداز میں بات کرنے لگا ہے۔
یہ جواب اجلاس میں موجود دیگر رکن ممالک کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق محسن نقوی کے اس بیان نے پاکستان کی پالیسی کو مزید مضبوط بنایا ہے کہ اب کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر فیصلے کیے جائیں گے۔
Also read:پی سی بی نے قومی کھلاڑیوں کے این او سی معطل کردیے، بڑے نام بھی متاثر
پاک-بھارت کرکٹ تعلقات کی صورتحال
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تعلقات دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ 2012 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کوئی باقاعدہ سیریز نہیں ہوئی۔ صرف آئی سی سی یا اے سی سی کے ٹورنامنٹس میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آتی ہیں۔ اس صورتحال نے نہ صرف شائقین کو مایوس کیا ہے بلکہ دونوں ممالک کے بورڈز کے درمیان تناؤ بھی برقرار رکھا ہے۔
بھارت کی طرف سے بار بار یہ مؤقف اپنایا جاتا ہے کہ سیکیورٹی اور سیاسی مسائل کے باعث وہ پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری جانب پاکستان کا مؤقف ہے کہ سیاست کو کھیل سے الگ رکھا جائے اور بھارت کو دیگر ممالک کی طرح پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے۔
اجلاس کے دیگر نکات
اجلاس میں مالی شفافیت، نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور خواتین کرکٹ کی ترقی پر بھی بات ہوئی۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش نے اس بات پر زور دیا کہ ریونیو شیئرنگ کا نظام مزید متوازن ہونا چاہیے تاکہ چھوٹے بورڈز بھی اپنے ڈھانچے کو مضبوط بنا سکیں۔ افغانستان کے نمائندوں نے اپنی ٹیم کے لیے ڈویلپمنٹ پروگرامز اور انڈر 19 ایونٹس پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
مستقبل کی سمت
یہ اجلاس اس بات کی علامت ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل محض کھیل کے انتظامی معاملات تک محدود نہیں بلکہ ایک پلیٹ فارم ہے جہاں خطے کی سیاست، تعلقات اور قومی وقار بھی زیر بحث آتا ہے۔ محسن نقوی کے بیان نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اب اپنے مؤقف پر مزید سختی سے ڈٹا رہے گا اور کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں بھارت اور پاکستان کے تعلقات کس رخ پر جاتے ہیں، خاص طور پر آئی سی سی ٹورنامنٹس کے تناظر میں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس اب محض کرکٹ کے ایونٹس تک محدود نہیں رہے بلکہ ایک بڑے جغرافیائی سیاسی کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔
نتیجہ
بھارتی بورڈ کی طرف سے ٹرافی کا مطالبہ اور اس پر محسن نقوی کا دو ٹوک جواب ایک چھوٹی سی مگر اہم جھلک ہے کہ کھیل کے میدان میں بھی قومی وقار کس طرح جھلکتا ہے۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس نہ صرف کھیل بلکہ سیاست اور تعلقات کا بھی عکاس ہیں۔
ڈسکلیمر: اس خبر میں دی گئی معلومات دستیاب رپورٹس اور مستند ذرائع پر مبنی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین اپ ڈیٹس کے لیے سرکاری اور معتبر نیوز آؤٹ لیٹس سے تصدیق کریں۔