پاکستان کے مختلف حصوں میں حالیہ دنوں ہونے والی شدید بارشوں نے تباہی مچا دی ہے، جس کے نتیجے میں آنے والے سیلابی ریلوں نے کئی گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حکام کے مطابق اب تک 157 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ سیکڑوں مکانات منہدم، کھیت برباد اور بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو چکا ہے۔
بارشوں کا غیر معمولی سلسلہ
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز سے ملک کے شمالی اور جنوبی خطوں میں غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں بارشوں نے معمولاتِ زندگی مفلوج کر دیے ہیں۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارشوں کی شدت گزشتہ 30 برسوں کے اوسط سے کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی، جس سے دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا۔
سیلابی ریلوں کی تباہ کاری
سیلابی ریلے اچانک گاؤں اور کھیتوں میں داخل ہو گئے، جس کے باعث لوگوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں کئی دیہات مکمل طور پر زیرِ آب آ گئے، جبکہ خیبر پختونخوا کے سوات اور دیر کے پہاڑی علاقوں میں ندی نالوں نے گھروں اور پلوں کو بہا دیا۔ جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں بھی پانی نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔
مقامی مکینوں کے مطابق رات کے وقت آنے والے ریلے سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے، کیونکہ زیادہ تر لوگ نیند میں تھے اور بروقت محفوظ مقامات پر منتقل نہیں ہو سکے۔
انسانی جانوں کا نقصان
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جاں بحق ہونے والے 157 افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ متعدد افراد تاحال لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ کئی دیہات تک رسائی اب بھی ممکن نہیں کیونکہ سڑکیں اور پل ٹوٹ چکے ہیں، اور بعض مقامات پر پانی کی گہرائی کئی فٹ تک پہنچ چکی ہے۔
لاکھوں افراد متاثر
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق سیلاب کے باعث لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ ہزاروں مزید مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ کھڑی فصلیں پانی میں ڈوبنے سے کسانوں کو شدید معاشی نقصان کا سامنا ہے۔
امدادی کارروائیاں
پاک فوج، ریسکیو 1122، اور دیگر رضاکار تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پھنسے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ متاثرین کو خیمے، خشک راشن، اور پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ تاہم، امدادی کارکنوں کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں خراب موسم، ٹوٹا ہوا بنیادی ڈھانچہ، اور مواصلاتی نظام کی بندش شامل ہیں۔
متاثرین کی کہانیاں
ضلع سوات کے گاؤں مٹلتان سے تعلق رکھنے والی زینت بی بی کا کہنا ہے:
“پانی اتنی تیزی سے آیا کہ ہم کچھ بھی نہ بچا سکے۔ بس بچوں کو لے کر بھاگے، باقی سب کچھ پانی میں بہہ گیا۔”
اسی طرح بلوچستان کے علاقے اوتھل کے ایک کسان، محمد سلیم، نے بتایا کہ ان کی زندگی بھر کی محنت ایک لمحے میں برباد ہو گئی:
“میرے کھیت، بیج، مویشی… سب ختم ہو گئے۔ نہ گھر بچا نہ روزگار۔ اب سمجھ نہیں آ رہا کہاں جائیں۔”
حکومتی ردِعمل
وزیراعظم نے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا اور امدادی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ہدایت دی۔ وفاقی حکومت نے ہنگامی فنڈز جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ صوبائی حکومتوں کو متاثرین کی بحالی کے لیے خصوصی پیکج تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
وزارتِ خزانہ نے بتایا کہ بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے تاکہ ریلیف فنڈز اور تکنیکی معاونت حاصل کی جا سکے۔
ماہرین کی آراء
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اب پاکستان میں زیادہ شدت سے نظر آ رہے ہیں۔ غیر متوقع بارشیں، گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ، اور دریا کے کناروں پر غیر منصوبہ بند آبادیاں سیلاب کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں۔
ڈاکٹر فرزانہ، ماہرِ ماحولیاتی سائنس، نے کہا:
“ہمیں نہ صرف ہنگامی بنیادوں پر امدادی اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ طویل مدتی منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی تاکہ مستقبل میں اس طرح کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔”
Also read :اسلام آباد میں مسجد کی مسماری کے بعد شہریوں کا ردِعمل — درخت اکھاڑنے کے باوجود عبادت کا سلسلہ جاری
معیشت پر اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب سے زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہوگا۔ کپاس، گندم، اور سبزیوں کی فصلوں کے نقصان سے ملک میں غذائی قلت اور مہنگائی کا خدشہ ہے۔ مویشیوں کے نقصان سے دودھ اور گوشت کی پیداوار بھی کم ہو سکتی ہے، جس کا اثر براہِ راست عام آدمی پر پڑے گا۔
عوامی تعاون کی اپیل
امدادی اداروں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عطیات دیں اور خوراک، کپڑے، اور ادویات فراہم کریں۔ سوشل میڈیا پر بھی فنڈ ریزنگ مہم چلائی جا رہی ہے، جس میں اندرون اور بیرونِ ملک سے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔
مستقبل کے لیے اقدامات
حکومت اور ماہرین نے تجویز دی ہے کہ:
- دریا کے کناروں پر مضبوط حفاظتی بند تعمیر کیے جائیں۔
- بارش کے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے جدید ڈرینیج سسٹم بنایا جائے۔
- پہاڑی علاقوں میں درخت لگانے کی مہم تیز کی جائے تاکہ زمین کی کٹاؤ روکی جا سکے۔
- سیلاب سے پہلے انتباہی نظام کو بہتر بنایا جائے۔
یہ سیلاب پاکستان کے حالیہ برسوں میں آنے والے سب سے بڑے قدرتی سانحات میں سے ایک ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع، معیشت پر کاری ضرب، اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی ایک طویل المدتی چیلنج ہے۔ مگر بروقت امدادی سرگرمیوں، عوامی تعاون، اور مؤثر حکومتی منصوبہ بندی سے اس بحران کے اثرات کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔