Advertisement

اسلام آباد میں مسجد کی مسماری کے بعد شہریوں کا ردِعمل — درخت اکھاڑنے کے باوجود عبادت کا سلسلہ جاری

اسلام آباد میں ایک متنازعہ واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ایک مخصوص مقام پر قائم مسجد کو گرا دیا گیا، اور اسی دوران وہاں موجود درخت بھی اکھاڑ دیے گئے۔ اس کارروائی کے فوراً بعد مقامی شہریوں نے اسی جگہ پر نماز ادا کرنا شروع کر دی، جس سے صورتحال نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ واقعے نے نہ صرف مقامی آبادی بلکہ ملک بھر میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو متوجہ کر لیا ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی یہ موضوع بحث کا مرکز بن گیا ہے۔

Advertisement

پس منظر

شہر کے اس حصے میں برسوں سے ایک چھوٹی مسجد قائم تھی، جو نہ صرف عبادت کا مرکز تھی بلکہ قریبی رہائشیوں کے لیے ایک سماجی میل جول کا مقام بھی سمجھی جاتی تھی۔ شہریوں کے مطابق، یہ مسجد مقامی کمیونٹی کے چندے سے تعمیر کی گئی تھی اور یہاں پانچ وقت کی نماز کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔

تاہم، کچھ عرصے سے یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ متعلقہ جگہ سرکاری زمین پر قائم ہے اور ممکن ہے کہ مستقبل میں وہاں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کیا جائے۔ سرکاری اداروں نے اس حوالے سے کوئی واضح موقف پہلے پیش نہیں کیا، لیکن گزشتہ ہفتے اچانک وہاں مشینری پہنچ گئی۔

کارروائی کی تفصیل

موقع پر موجود عینی شاہدین کے مطابق، صبح کے اوقات میں بھاری مشینری کے ذریعے مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔ اسی دوران، آس پاس لگے پرانے درخت بھی جڑ سے اکھاڑ دیے گئے، جن میں سے بعض دہائیوں پرانے تھے۔ درختوں کی کٹائی نے ماحول دوست حلقوں کو بھی تشویش میں ڈال دیا ہے۔

“ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سب کچھ چند گھنٹوں میں ختم کر دیا گیا،” ایک مقامی رہائشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا۔ “یہ جگہ صرف عبادت گاہ نہیں تھی بلکہ ہمارے بچوں کے لیے قرآن پڑھنے کی جگہ تھی۔”

عوامی ردِعمل

کارروائی کے فوراً بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد موقع پر جمع ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے احتجاج کیا، جبکہ دیگر نے وہیں پر صفیں بچھا کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ سوشل میڈیا پر اس عمل کی تصاویر اور ویڈیوز تیزی سے وائرل ہو گئیں، جن میں شہریوں کو کھلے آسمان تلے نماز پڑھتے اور دعائیں کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک نوجوان نے کہا، “اگر مسجد کو گرایا گیا ہے تو کیا ہوا؟ عبادت کسی عمارت کی محتاج نہیں۔ ہم اسی جگہ پر اللہ کی عبادت کریں گے۔”

حکومتی موقف

اس حوالے سے حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ جگہ دراصل سرکاری اراضی پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی، اور عدالتی حکم کے مطابق اس کو ہٹایا گیا۔ ان کے مطابق، مستقبل میں اس مقام پر عوامی سہولت کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔

ایک سرکاری افسر نے کہا، “ہم قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک مسجد کا مسئلہ نہیں، بلکہ شہر کی ماسٹر پلاننگ کا حصہ ہے۔”

تاہم، مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر جگہ غیر قانونی تھی تو بھی مقامی لوگوں کو پہلے اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا اور متبادل جگہ فراہم کی جانی چاہیے تھی۔

Also read :بیوی کی لاش موٹر سائیکل پر باندھ کر لے جانے کی ویڈیو وائرل — عوام میں غم و غصہ

ماحولیاتی پہلو

درختوں کے اکھاڑے جانے پر ماحولیاتی کارکنان نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق، اسلام آباد پہلے ہی کٹائی اور شہری توسیع کے باعث سبز علاقے کھو رہا ہے۔ “ہماری شہروں کو سبز رکھنے کی بجائے ہم انہیں کنکریٹ کے جنگل میں بدل رہے ہیں،” ایک ماحولیاتی ماہر نے کہا۔

مذہبی اور سماجی اثرات

مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ عبادت گاہ کو ہٹانے سے عوامی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ بعض علما نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کو عبادت کے لیے متبادل جگہ فراہم کی جائے تاکہ تنازع ختم ہو۔

سماجی ماہرین کے مطابق، اس واقعے نے شہریوں اور انتظامیہ کے درمیان اعتماد کے خلا کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ “جب عوام دیکھتے ہیں کہ ان کے مقدس مقامات کو بغیر مشاورت کے ہٹایا جا رہا ہے، تو وہ حکومتی فیصلوں کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں،” ایک سماجی تجزیہ کار نے کہا۔

سوشل میڈیا پر بحث

ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر اس واقعے کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ کچھ لوگ حکومتی اقدام کی حمایت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، جبکہ دیگر اسے عوامی جذبات سے کھیلنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

کچھ صارفین نے ہیش ٹیگ #مسجد_اسلام_آباد اور #عبادت_کا_حق کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا، اور بعض نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر یہ جگہ عوامی سہولت کے لیے تھی تو درخت کیوں کاٹے گئے؟

آئندہ کا منظرنامہ

فی الحال، شہری اسی جگہ پر نماز پڑھ رہے ہیں اور بظاہر یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں انتظامیہ اور مقامی آبادی کے درمیان مزید مذاکرات ہوں۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک مسجد کا نہیں بلکہ شہری منصوبہ بندی، ماحولیاتی تحفظ، اور عوامی اعتماد کا بھی ہے۔

اسلام آباد کا یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور قانون کے نفاذ کے دوران عوامی جذبات اور ماحولیاتی تحفظ کو نظرانداز کرنا کس طرح بڑے تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف حکومت کا موقف ہے کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہوا، وہیں دوسری طرف عوام کا ماننا ہے کہ مقدس مقامات کے حوالے سے زیادہ حساسیت دکھانے کی ضرورت ہے۔

وقت بتائے گا کہ یہ تنازع کس سمت جاتا ہے، لیکن فی الحال، کھلے آسمان تلے گونجتی اذانیں اور صفوں میں کھڑے شہری اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایمان اور عبادت کسی اینٹ یا پتھر کی محتاج نہیں۔

Leave a Comment