ایشیا کپ ہمیشہ سے شائقین کرکٹ کے لیے غیر معمولی دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں ایشیائی ممالک کے درمیان ہونے والے سنسنی خیز مقابلے نہ صرف خطے میں کرکٹ کے فروغ کا باعث بنتے ہیں بلکہ شائقین کے جذبات کو بھی نئی جِلا بخشتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے جہاں گروپ اسٹیج کے اختتامی مراحل میں ایک ہی میچ یہ طے کرے گا کہ کون سا ملک اگلے مرحلے میں جگہ بنائے گا۔ سوال سب کے ذہنوں میں ہے: کیا بنگال ٹائیگرز یعنی بنگلہ دیش آگے بڑھ پائیں گے یا افغان ٹیم اپنے جارحانہ کھیل کی بدولت سیمی فائنل یا سپر فور تک رسائی حاصل کرے گی؟ اس فیصلے کی کُل ذمہ داری سری لنکا اور افغانستان کے درمیان ہونے والے میچ پر ہے۔
بنگلہ دیش کی صورتحال
بنگلہ دیش کی ٹیم ایشیا کپ میں ہمیشہ غیر یقینی صورتحال کا شکار رہی ہے۔ ٹیم میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن اکثر کھلاڑی بڑے مواقع پر دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی بنگلہ دیش نے اپنی کارکردگی میں اتار چڑھاؤ دکھایا۔ بعض میچز میں ٹیم نے زبردست بیٹنگ اور باؤلنگ کا مظاہرہ کیا، لیکن کچھ مقابلوں میں فیلڈنگ کی کمزوریاں اور بیٹنگ آرڈر کے اچانک ڈھیر ہو جانے کی وجہ سے پوائنٹس ٹیبل پر ان کی پوزیشن کمزور رہی۔
بنگلہ دیش کے لیے سب سے بڑی امید شکیب الحسن جیسے تجربہ کار آل راؤنڈر اور نوجوان بیٹسمینوں کی فارم ہے۔ اگر وہ اگلے مرحلے تک پہنچنا چاہتے ہیں تو انہیں افغانستان اور سری لنکا کے میچ کے نتائج پر نظریں رکھنی ہوں گی۔ بنگال ٹائیگرز کے شائقین کے لیے یہ انتظار کسی اعصاب شکن مرحلے سے کم نہیں۔
افغانستان کا عروج
افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے پچھلے چند برسوں میں حیران کن ترقی کی ہے۔ راشد خان، مجیب الرحمان اور محمد نبی جیسے عالمی شہرت یافتہ اسپنرز کے ساتھ ساتھ اب افغان ٹیم میں ایسے بلے باز بھی موجود ہیں جو دباؤ والے مواقع پر بڑی اننگز کھیل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیا کپ میں افغانستان کو ایک ایسی ٹیم سمجھا جاتا ہے جو کسی بھی بڑے حریف کو شکست دے سکتی ہے۔
افغان ٹیم کے لیے سب سے بڑی طاقت ان کا بولنگ اٹیک ہے، خاص طور پر اسپنرز جنہوں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ تاہم بیٹنگ کے شعبے میں تسلسل کی کمی ابھی بھی ٹیم کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اگر افغانستان سری لنکا کے خلاف میچ میں بہتر بیٹنگ کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ باآسانی اگلے مرحلے تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور بنگلہ دیش کی امیدوں پر پانی پھیر سکتا ہے۔
سری لنکا کا کردار
سری لنکا نہ صرف ایشیا کپ کی میزبانی کے سبب مرکزی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس کی اپنی ٹیم بھی ایک خطرناک حریف ہے۔ اگرچہ سری لنکا کو ان دنوں کئی انجریز اور اسکواڈ میں تبدیلیوں کا سامنا ہے، لیکن یہ ٹیم ہمیشہ اپنی لڑاکا صلاحیتوں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ سری لنکا کے بیٹسمین اپنی کنڈیشنز میں زیادہ پراعتماد نظر آتے ہیں اور باؤلرز بھی اسپن اور فاسٹ اٹیک کے امتزاج سے مخالف ٹیموں کو مشکلات میں ڈال سکتے ہیں۔
افغانستان کے خلاف میچ سری لنکا کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ وہ اپنی عزت اور ٹورنامنٹ میں جگہ برقرار رکھنے کے لیے میدان میں اترے گا۔ اس لیے یہ میچ محض افغان یا بنگلہ دیش کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ سری لنکا کے کرکٹ مداحوں کے لیے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
Also read :پنجاب میں 200 سے زائد گوداموں سے ذخیرہ کی گئی گندم قبضے میں لے لی گئی
شائقین کی نظریں
ایشیا کپ میں ہمیشہ سے بھارت اور پاکستان کے میچ سب سے زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں، لیکن اس بار بنگلہ دیش، افغانستان اور سری لنکا کے درمیان ہونے والی رسہ کشی بھی زبردست دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر شائقین اپنی ٹیموں کے حق میں دعائیں کر رہے ہیں اور ماہرین تجزیہ کر رہے ہیں کہ کون سی ٹیم زیادہ امکانات رکھتی ہے۔
کرکٹ کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر افغانستان نے بیٹنگ میں تسلسل دکھایا تو سری لنکا کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، لیکن اگر سری لنکن باؤلرز نے جلد وکٹیں حاصل کرلیں تو بنگلہ دیش کے اگلے مرحلے میں جانے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ یہی غیر یقینی کیفیت ایشیا کپ کو مزید دلچسپ بنا رہی ہے۔
نتیجہ
اختتامی تجزیے کے مطابق ایشیا کپ کا یہ مرحلہ بنگلہ دیش اور افغانستان دونوں کے لیے امتحان سے کم نہیں۔ ایک طرف بنگلہ دیش اپنی امیدیں سری لنکا کی کارکردگی پر لگا بیٹھا ہے، تو دوسری طرف افغانستان اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں رکھتا ہے۔ اگر افغان ٹیم سری لنکا کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ اگلے مرحلے میں پہنچ جائے گی، بصورت دیگر بنگلہ دیش کے لیے دروازے کھل سکتے ہیں۔
یوں ایشیا کپ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ غیر متوقع نتائج اور شائقین کے جذبات کا حسین امتزاج ہے۔ اب سب کی نظریں سری لنکا اور افغانستان کے مقابلے پر جمی ہیں، جس کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ ایشیا کپ کی دوڑ میں آگے بڑھنے والا خوش نصیب کون ہوگا: بنگال ٹائیگرز یا افغان شاہین؟