پاکستان میں گیس کے بحران اور توانائی کی قلت ایک عرصے سے عوام اور حکومت دونوں کے لیے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ سردیوں میں گھریلو صارفین کو گیس کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے جبکہ صنعتی اور تجارتی شعبہ بھی اس مسئلے کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ اسی پس منظر میں حالیہ اطلاعات کے مطابق 39 ہزار نئی درخواستیں گیس کنکشن کے لیے جمع ہو چکی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کنکشنز کو سب سے پہلے کن صارفین کو دیا جائے گا اور اس کی ترجیحات کس بنیاد پر طے کی جائیں گی؟
موجودہ صورتحال
- ملک بھر میں ہزاروں گھریلو صارفین برسوں سے نئے گیس کنکشن کے منتظر ہیں۔
- سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کے پاس 39 ہزار سے زائد درخواستیں موجود ہیں۔
- حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کنکشنز کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر کی جائے گی تاکہ زیادہ ضرورت مند صارفین کو پہلے سہولت مل سکے۔
ترجیحات کیسے طے کی جائیں گی؟
حکومت اور گیس کمپنیاں درج ذیل اصولوں کے تحت فیصلہ کرنے جا رہی ہیں کہ نئے کنکشن کن کو پہلے ملیں گے:
- گھریلو صارفین کو ترجیح
- گیس کی کمی کے باوجود سب سے پہلے گھریلو صارفین کو کنکشن دینے پر زور دیا جا رہا ہے۔
- خصوصاً وہ علاقے جہاں اب تک گیس کی سہولت موجود نہیں، وہاں ترجیحی بنیادوں پر کنکشن دیے جائیں گے۔
- صنعتی شعبہ
- برآمدات سے جڑی صنعتوں کو کنکشن دینے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ ملکی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔
- ٹیکسٹائل، فارما اور فوڈ انڈسٹریز کو محدود پیمانے پر ترجیح مل سکتی ہے۔
- کمرشل صارفین
- ہوٹلوں، بیکریز اور دیگر چھوٹے کاروباری اداروں کو بعد میں کنکشن ملنے کا امکان ہے۔
- پرانے درخواست گزار
- جو لوگ کئی سال سے درخواست دے کر انتظار کر رہے ہیں، ان کی درخواستوں پر پہلے عمل درآمد کیا جائے گا۔
Also read :اسلام آباد میں باپ، بیٹا اور بیٹی کا قتل؛ ابتدائی تحقیقات میں اہم انکشافات
حکومت کا موقف
حکومتی ذرائع کے مطابق:
- گیس کے ذخائر میں کمی اور درآمدی ایل این جی کی بلند قیمتوں کی وجہ سے طلب پوری کرنا مشکل ہے۔
- کنکشنز کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔
- نئے کنکشن صرف ان علاقوں میں دیے جائیں گے جہاں پائپ لائن انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے۔
عوامی ردعمل
عوام کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ:
- وہ برسوں سے گیس کے لیے انتظار کر رہے ہیں مگر اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
- کچھ شہریوں نے الزام لگایا ہے کہ گیس کنکشن حاصل کرنے کے لیے سفارش اور رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
- حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ شفاف اور تیز تر عمل کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب اور متوسط طبقہ سب سے پہلے فائدہ اٹھا سکے۔
ماہرین کی رائے
توانائی ماہرین کے مطابق:
- ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر میں سالانہ 7 تا 9 فیصد کمی واقع ہو رہی ہے۔
- ایل این جی درآمد کرنے کے باوجود طلب و رسد میں فرق ختم نہیں ہو پا رہا۔
- اس صورتحال میں حکومت کو چاہیے کہ نئے کنکشن دینے کے ساتھ ساتھ متبادل توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی اور بجلی کے آلات کے استعمال کو فروغ دے۔
شفافیت کے اقدامات
سوئی گیس کمپنیوں نے کہا ہے کہ:
- آن لائن پورٹل کے ذریعے درخواستوں کی حیثیت دیکھی جا سکے گی۔
- قرعہ اندازی اور پالیسی کے تحت کنکشنز کی تقسیم ہوگی تاکہ کسی کو غیر ضروری ترجیح نہ ملے۔
- غیر قانونی کنکشنز اور گیس چوری کے خلاف سخت کارروائی بھی جاری ہے تاکہ موجودہ نظام پر بوجھ کم ہو۔
عوامی مشکلات
گیس کنکشن کے مسئلے کی وجہ سے عوام کو کئی طرح کی مشکلات درپیش ہیں:
- گھریلو صارفین کو کھانا پکانے کے لیے متبادل ذرائع جیسے سلنڈر یا لکڑی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
- سردیوں میں ہیٹر اور گیزر کے نہ ہونے سے عوام کو شدید تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔
- کمرشل صارفین کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں جس کا اثر براہ راست مہنگائی پر پڑتا ہے۔
مستقبل کے امکانات
اگر حکومت اپنی پالیسی پر کامیابی سے عمل کرے تو:
- پرانے درخواست گزاروں کو جلد ریلیف مل سکتا ہے۔
- شفاف طریقہ کار کے باعث عوامی اعتماد بحال ہو گا۔
- صنعتی شعبہ بہتر کارکردگی دکھا سکے گا، جس سے برآمدات میں اضافہ ممکن ہے۔
تاہم اگر توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ نہ دی گئی تو صرف کنکشن دینے سے مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوگا۔
نتیجہ
39 ہزار درخواستوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ گیس کی مانگ ملک بھر میں کس قدر زیادہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ کمپنیاں کس طرح شفاف اور ترجیحی بنیادوں پر کنکشنز تقسیم کرتی ہیں۔ گھریلو صارفین، پرانے درخواست گزار اور صنعت سبھی اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کی باری آئے گی۔ اس صورتحال نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کی ہے کہ پاکستان کو نہ صرف موجودہ وسائل کا بہتر استعمال کرنا ہوگا بلکہ توانائی کے نئے ذرائع پر بھی سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں عوام کو ایسے بحرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔