پاکستان کی معیشت اس وقت ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے، اور اب اس بحران کی شدت میں اضافہ کرتے ہوئے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار 50 فیصد کپاس کی فیکٹریاں غیر فعال ہوگئی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر بلکہ زراعت، برآمدات اور مجموعی طور پر قومی معیشت کے لیے تشویشناک قرار دی جا رہی ہے۔
پس منظر
پاکستان کو طویل عرصے سے کپاس پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری ملک کی برآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، بیجوں کے مسائل، حکومت کی پالیسیوں اور عالمی مارکیٹ کے دباؤ نے اس شعبے کو شدید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
اب یہ خبر کہ ملک کی نصف کپاس فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں، ان مسائل کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
غیر فعال ہونے کی وجوہات
1. کپاس کی پیداوار میں کمی
پاکستان میں کپاس کی پیداوار مسلسل کمی کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس کی بڑی وجوہات میں غیر معیاری بیج، زرعی اصلاحات کی کمی اور کیڑے مکوڑوں کی بھرمار شامل ہیں۔ اس سال کپاس کی پیداوار ہدف سے کئی گنا کم رہی جس نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو براہ راست متاثر کیا۔
2. بجلی اور گیس کا بحران
صنعتی شعبے کو سب سے بڑا مسئلہ توانائی کی قلت کا درپیش ہے۔ فیکٹری مالکان کے مطابق، بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کے باعث پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے اور بہت سی فیکٹریاں کاروبار جاری رکھنے کے قابل نہیں رہیں۔
3. درآمدات پر انحصار
مقامی پیداوار کم ہونے کے باعث ٹیکسٹائل سیکٹر نے درآمدی کپاس پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ لیکن ڈالر کی اونچی قیمت اور درآمدی پالیسیوں کی سختیوں نے اس راستے کو بھی مشکل بنا دیا۔
4. حکومتی پالیسیوں میں تضاد
فیکٹری مالکان کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ کبھی سبسڈی دی جاتی ہے تو کبھی واپس لے لی جاتی ہے، جس سے سرمایہ کار اور صنعت کار غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
اثرات
برآمدات پر اثر
پاکستان کی برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر کا رہا ہے۔ لیکن نصف فیکٹریوں کے بند ہونے کے بعد برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی آنے کا خدشہ ہے، جو پہلے ہی ڈالر کی کمی اور تجارتی خسارے کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔
مزدور طبقے پر اثر
فیکٹریوں کے بند ہونے سے لاکھوں مزدور بیروزگار ہونے کے خدشے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اس سے غربت اور بے روزگاری کی شرح مزید بڑھے گی۔
Also read :چینی کے بعد آٹا بھی مہنگا ہو گیا — عوام پر مہنگائی کا نیا وار
معیشت پر اثر
ملکی معیشت جو پہلے ہی قرضوں اور خسارے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، اس بحران سے مزید مشکلات میں پھنس سکتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ جاری مذاکرات پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر فوری طور پر اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق، حکومت کو کپاس کی فصل کے معیار کو بہتر بنانے، توانائی کے مسائل حل کرنے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے خصوصی پیکجز دینے کی ضرورت ہے۔
کسانوں کا موقف
کپاس پیدا کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہ تو معیاری بیج فراہم کیے جاتے ہیں اور نہ ہی کھاد اور زرعی ادویات وقت پر ملتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بارشوں اور سیلاب نے بھی فصلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ کسانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت انہیں سہولیات دے تاکہ وہ اپنی پیداوار بڑھا سکیں۔
صنعت کاروں کا مطالبہ
فیکٹری مالکان اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نمائندوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ توانائی کے نرخوں میں کمی کی جائے، درآمدی پالیسیوں کو آسان بنایا جائے اور کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو مزید فیکٹریاں بند ہو سکتی ہیں۔
مستقبل کے خطرات
اگر کپاس کی فیکٹریوں کا نصف حصہ غیر فعال رہتا ہے تو آنے والے دنوں میں پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوگی اور دیگر ممالک کو موقع ملے گا کہ وہ ٹیکسٹائل کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیں۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت کی بحالی کے لیے فوری اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کپاس اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نظرانداز کرنا ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت، کسان اور صنعت کاروں کو مل کر اس بحران کا حل نکالنا ہوگا تاکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔