Advertisement

چینی کے بعد آٹا بھی مہنگا ہو گیا — عوام پر مہنگائی کا نیا وار

پاکستان میں مہنگائی کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد اب آٹے کی قیمت بھی آسمان کو چھونے لگی ہے، جس نے عوام کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ روزمرہ استعمال کی سب سے بنیادی اور لازمی چیز آٹا ہے، اور جب یہی مہنگا ہو جائے تو عام شہری کے لیے زندگی گزارنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

Advertisement

آٹے کی قیمت میں اضافہ

بازاروں اور مارکیٹوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق آٹے کی قیمت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں کئی سو روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، جبکہ 10 کلو آٹے کا تھیلا بھی عام صارف کی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ چکی کا آٹا مزید مہنگا مل رہا ہے، جس کی قیمت فی کلو اب زیادہ تر شہروں میں 150 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔

چینی کے بعد آٹا کیوں مہنگا ہوا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجوہات یہ ہیں:

  1. گندم کی قلت: ملک میں گندم کی پیداوار مطلوبہ ہدف سے کم رہی ہے۔
  2. ذخیرہ اندوزی: کئی ذخیرہ اندوزوں نے گندم کو مارکیٹ میں لانے کے بجائے گوداموں میں رکھ لیا ہے تاکہ زیادہ منافع کمایا جا سکے۔
  3. درآمدی مسائل: بیرون ملک سے گندم درآمد کرنے میں تاخیر اور ڈالر کی بڑھتی قیمت نے بھی آٹے کی لاگت بڑھا دی ہے۔
  4. ٹرانسپورٹ اخراجات: پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے باعث آٹے کی ترسیل کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔

عوام پر اثرات

آٹے کی قیمت بڑھنے کے باعث عام آدمی کا کچن براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ عوام پہلے ہی بجلی، گیس اور چینی کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان تھے اور اب آٹے کی مہنگائی نے ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ متوسط طبقہ تو پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے، لیکن غریب طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی ایک چیلنج بن گیا ہے۔

نان بائیوں کا ردعمل

نان بائی ایسوسی ایشن نے بھی آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد نان اور روٹی کی قیمتیں بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ کئی شہروں میں 20 روپے کی روٹی 25 روپے اور 25 روپے کا نان 30 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آٹے کی مہنگائی کا اثر صرف گھریلو سطح پر ہی نہیں بلکہ باہر کھانے والوں پر بھی پڑے گا۔

حکومت کا موقف

حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آٹے کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گندم کی درآمد، سبسڈی دینے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ لیکن عوام کا کہنا ہے کہ یہ وعدے بار بار کیے جاتے ہیں مگر عملی اقدامات کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اپوزیشن کی تنقید

اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی نااہلی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی روٹی جیسی بنیادی ضرورت پوری کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر آٹے کی قیمتوں میں کمی لائی جائے اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔

ماہرین کی تجاویز

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ:

  • گندم کی مقامی پیداوار بڑھانے پر توجہ دی جائے۔
  • کسانوں کو سہولیات اور سبسڈی فراہم کی جائے۔
  • ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت اور شفاف کارروائی کی جائے۔
  • درآمدی پالیسیوں کو مؤثر اور شفاف بنایا جائے۔

سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آٹے کی مہنگائی ٹاپ ٹرینڈ بن چکی ہے۔ شہری حکومت پر طنز کے ساتھ ساتھ غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ کچھ صارفین نے کہا ہے کہ “اب روٹی بھی غریب کے نصیب میں نہیں رہی”، جبکہ کچھ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب گندم پیدا کرنے والا ملک ہی آٹا درآمد کرے تو عوام کو کیسے ریلیف مل سکتا ہے؟

نتیجہ

چینی کی مہنگائی کے بعد آٹے کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے تو مہنگائی کا یہ طوفان مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ آٹا ہر پاکستانی گھرانے کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کی دستیابی سستے داموں یقینی بنانا حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔

Leave a Comment