سوات کی خوبصورت وادی حالیہ دنوں میں ایک بار پھر قدرتی آفت کی لپیٹ میں آ گئی۔ شدید بارشوں اور پہاڑوں سے اترنے والے طوفانی ریلا نے علاقے میں تباہی مچا دی۔ گھروں، سڑکوں، فصلوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچا، لوگ اپنے پیاروں کی جانوں کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ایسے میں ایک اسکول کی کہانی سامنے آئی جس نے نہ صرف مقامی آبادی کو متاثر کیا بلکہ پورے ملک کو امید اور حوصلے کا پیغام دیا۔ اس اسکول کے پرنسپل کی حاضر دماغی اور بروقت فیصلے نے 936 معصوم بچوں کی زندگیاں بچالیں۔
واقعے کا پس منظر
گزشتہ کئی دنوں سے سوات اور اس کے مضافات میں بارشوں کا سلسلہ جاری تھا۔ مقامی انتظامیہ نے بارہا سیلابی صورتحال کے خطرات سے آگاہ کیا، مگر کئی دیہاتوں میں لوگوں نے خطرے کو نظر انداز کر دیا۔ ایسے میں ایک اسکول بھی شدید خطرے کی زد میں تھا، جہاں سیکڑوں بچے پڑھائی میں مصروف تھے۔ اسکول کے قریب پہاڑ سے آنے والے پانی کے تیز ریلا نے لمحوں میں پوری صورتحال بدل دی۔
پرنسپل کی حاضر دماغی
اسکول پرنسپل نے جب دیکھا کہ پانی تیزی سے اسکول کی طرف بڑھ رہا ہے تو انہوں نے فوراً فیصلہ کیا۔ بجائے گھبرانے یا وقت ضائع کرنے کے، انہوں نے اساتذہ کو ہدایت دی کہ بچوں کو قطاروں کی صورت میں نکال کر محفوظ مقام کی طرف منتقل کریں۔
پرنسپل نے نہ صرف خود قیادت کی بلکہ اساتذہ اور سینئر طلبہ کو بھی ذمہ داریاں دیں۔ کچھ اساتذہ نے بچوں کو ہاتھوں میں تھام کر آگے بڑھایا، کچھ نے پیچھے سے رہنمائی کی۔ یوں پورے اسکول کے 936 بچے لمحوں میں کلاس رومز سے نکل کر قریبی اونچی زمین پر پہنچا دیے گئے۔
لمحہ بہ لمحہ جدوجہد
عینی شاہدین کے مطابق اسکول کے دروازے تک پانی پہنچ چکا تھا، لیکن پرنسپل کے فیصلے کی بدولت بچے گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ اساتذہ بچوں کو تسلی دیتے رہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ کچھ چھوٹے بچے رونے لگے، مگر پرنسپل اور اساتذہ نے انہیں گود میں اٹھا کر محفوظ مقام تک پہنچایا۔ یہ سب کچھ چند ہی منٹوں میں ہوا، اور جب تک پانی اسکول کے صحن میں داخل ہوا، بچے اور اساتذہ پہلے ہی محفوظ جگہ پہنچ چکے تھے۔
بچوں اور والدین کا ردعمل
جب والدین کو معلوم ہوا کہ اسکول سیلابی پانی کی زد میں ہے، تو وہ بھاگم بھاگ اسکول کی طرف دوڑے۔ لیکن وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے صحیح سلامت پرنسپل کی قیادت میں قریبی اونچے میدان میں کھڑے ہیں۔ کئی والدین کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ نکلے اور انہوں نے پرنسپل کو دعائیں دیں۔
ایک والد نے کہا:
“اگر پرنسپل بروقت فیصلہ نہ کرتے تو آج شاید ہم اپنے بچے کبھی نہ دیکھ پاتے۔ وہ ہماری نسلوں کے محسن ہیں۔”
مقامی انتظامیہ اور عوام کا خراجِ تحسین
سیلابی ریلے کے گزرنے کے بعد جب صورتحال قابو میں آئی تو مقامی انتظامیہ نے اسکول پرنسپل کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ یہ ایک مثالی واقعہ ہے اور اس پرنسپل کو ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے۔ عوام نے بھی سوشل میڈیا پر اس واقعے کو وائرل کیا اور پرنسپل کو “ہیرو آف سوات” قرار دیا
Also read :شہری کے سینے سے 8 سال بعد چاقو نکال لیا گیا — ڈاکٹر بھی حیران
میڈیا کوریج
قومی میڈیا نے بھی اس واقعے کو نمایاں طور پر نشر کیا۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں سرخیاں لگیں کہ کس طرح ایک پرنسپل کی بہادری اور حاضر دماغی نے 936 معصوم جانیں بچا لیں۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کو ہزاروں لوگوں نے شیئر کیا اور پرنسپل کے حوصلے کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
تعلیم اور اساتذہ کا کردار
یہ واقعہ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ اساتذہ صرف تعلیمی رہنما ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں بچوں کے محافظ بھی ہوتے ہیں۔ اگر پرنسپل میں بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو نتیجہ نہایت بھیانک نکل سکتا تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ تعلیم دینے والا استاد مشکل وقت میں قیادت بھی کر سکتا ہے۔
سیلاب اور مستقبل کے چیلنجز
سوات میں سیلاب کوئی نئی بات نہیں، ہر چند سال بعد اس خطے کو ایسی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس بار کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہمیں ہنگامی حالات کے لیے پہلے سے تیاری کرنی چاہیے۔ اسکولوں، ہسپتالوں اور دیگر عوامی اداروں کو ایمرجنسی پلاننگ کی تربیت دینا ضروری ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی آفت میں قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔
سوات کے اس اسکول پرنسپل نے یہ ثابت کیا کہ بہادری اور حاضر دماغی سے بڑے سے بڑا خطرہ ٹالا جا سکتا ہے۔ ان کے بروقت فیصلے نے سیکڑوں والدین کو ہمیشہ کے لیے یتیم ہونے سے بچا لیا اور 936 بچوں کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ ایک سبق ہے کہ ایک فرد کا صحیح فیصلہ ہزاروں لوگوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔