پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف جاری کوششوں میں ایک بڑے کامیاب اقدام کے تحت ایف آئی اے کی اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل (AHTC) نے کراچی میں معروف این جی او HOPE کی چیئرپرسن ڈاکٹر مبینہ قاسم اگبوٹوالا کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر بچوں کی غیر قانونی اسمگلنگ اور غیر مجاز طریقے سے بیرونِ ملک منتقل کرنے کا الزام ہے، خاص طور پر امریکہ اور یورپی ممالک میں مبینہ طور پر ناجائز گود لینے کے نیٹ ورک کے ذریعے۔
پس منظر اور تحقیقات
- ایف آئی اے نے یہ کارروائی امریکی قونصل خانے کی ایک شکایت کی بنیاد پر عمل میں لائی۔ قونصل خانے نے ستمبر 2023 میں HOPE کے خلاف باقاعدہ شکایت درج کروائی تھی، جس میں بتایا گیا کہ این جی او نابالغ بچوں کو غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک منتقل کرتی رہی ہے۔
- اس شکایت کے بعد AHTC کراچی نے جولائی 2025 میں مقدمہ درج کیا۔ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ HOPE نے کم از کم 23 بچوں کو مختلف غیرملکی خاندانوں (مثلاً امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات) اور مقامی خاندانوں کو منتقل کیا، جبکہ اس ادارے کے وہ کسی سرکاری فلاحی یا سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹریشن بھی نہیں تھی۔
- ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بچوں کو اسپتالوں یا کلینکس کے قریب “لاوارث” حالت میں چھوڑ دیا جاتا اور اگلے دن ہی انہیں خواہشمند خاندانوں کے حوالے کر دیا جاتا۔ بہت سی عدالت کی درخواستیں ایک جیسی زبان پر مبنی تھیں، جو ایک منظم جعلسازی کا عندیہ دیتی ہیں۔
قانونی پہلو اور گرفتاری
- ڈاکٹر مبینہ قاسم اگبوٹوالا نے قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست دی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد انہیں فوری طور پر گرفتار کر کے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
- ان کے خلاف 2018 کے انسانی اسمگلنگ سے تحفظ قانون کی دفعات 3 (اسمگلنگ)، 4 (سنگین حالات) اور 6 (اسمگل شدہ افراد کی حیثیت) کے تحت کارروائی شروع کی گئی ہے۔
Also read : خوبصورت نوجوان لڑکی کا شادی کا جھانسہ: “سسرال” پہنچا تو ڈاکو نکلے!
الزامات کی تفصیلات
- ہوپ کو کبھی بھی یتیم خانہ یا گود لینے کا لائسنس یا اجازت نامہ حاصل نہیں تھا۔ اس تنظیم کے آئین میں بچوں کی گود لینے یا پناہ دینے کی کوئی شق بھی شامل نہ تھی۔
- ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ این جی او نے کئی جعلی دستاویزات تیار کیں جن میں بچوں کے گود لینے کے سرٹیفکیٹس، میڈیکل ریکارڈز اور شناختی پتہ جات شامل تھے تاکہ ویزا درخواستیں منظور ہو سکیں۔ فرار ہونے کی کوشش میں بچوں کے لیے ویزا کا عمل بھی جعلسازی کے تحت مکمل ہوتا تھا۔
- رپورٹ میں بتایا گیا کہ تنظیم نے “لاوارث” بچوں کو بیرونِ ملک منتقل کرنے کے لیے ایک ہی برادری یا محدود نیٹ ورک میں منسلک خاندانوں سے رابطہ کیا، جس میں مقامی اور غیرملکی خاندان بھی شامل تھے۔
سماجی اور قانونی اثرات
- یہ کیس نہ صرف جبری نامزدگی کے خلاف ایک سنگ میل ثابت ہوا بلکہ پاکستان میں بچوں کی حفاظت کے نظام میں موجود خامیوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ بچوں اور کمزور خاندانوں کو قانونی حقوق کی معلومات کی کمی اور اُن کے استحصال کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
- ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں بچوں کی اسمگلنگ کے روک تھام کے قوانین موجود ہیں، مگر نفاذ میں شدید ضعفی ہے۔ قانون سازی کے باوجود انٹیلی جنس، انویسٹی گیشن اور پروٹیکشن میکانزمز کو مؤثر بنانے میں کمی ہے۔
عدالتی کارروائی اور آئندہ راستہ
- عدالت نے گرفتاری کے بعد جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کی، لیکن عدالتی ریمانڈ کے تحت مزید تفتیش کی اجازت دی گئی۔ تحقیقاتی افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ مزید ملزمین کی شناخت اور گرفتاری کے امکانات موجود ہیں۔
- ایف آئی آر میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان الزامات کی مزید روشنی میں دیگر افراد، تنظیمی ملازمین، وکیل یا ثالث بھی ممکنہ طور پر شامل ہو سکتے ہیں۔
عالمی اور قومی ردعمل
- بین الاقوامی ادارے بشمول US State Department کے 2024 کے Trafficking in Persons رپورٹ کے تحت پاکستان کو Tier 2 ملک قرار دیا گیا ہے، یعنی ملک انسانی اسمگلنگ کے خلاف بعض کوششیں کر رہا ہے لیکن اس میں مکمل معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس کیس سے ان قانونی اور انتظامی کمزوریوں کا واضح اظہار ہوتا ہے۔
- بچوں کے حقوق کے کارکنان نے زور دیا کہ پاکستان کو فوری طور پر ایک مرکزی ڈیٹا بیس، تربیت یافتہ تفتیشی اہلکار، ٹراما کو مدنظر رکھتے ہوئے محفوظ پناہ گزین مراکز، بحالی پروگرامز اور شفاف عدالتی نظام فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بچوں کی اسمگلنگ کے خلاف قانونی جدوجہد کا یہ کیس ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر مبینہ قاسم اگبوٹوالا کی گرفتاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر کام کرنے والی تنظیمیں بھی جرائم سے مبرا نہیں رہ سکتیں اگر وہ مناسب شفافیت اور قانونی شرائط فراہم نہ کریں۔
یہ واقعہ پاکستان میں بچوں کی حفاظت، قانونی نفاذ، نامزدگی کی کارروائی، اور انسانی اسمگلنگ کے تدارک کے عمل میں اصلاح کی اشد ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ آئندہ میں امید کی جا سکتی ہے کہ اس کیس سے سبق حاصل کیا جائے گا، اور بچوں کے تحفظ کے لیے نئے نظام کو نافذ کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔