ایشیا کپ 2025 اپنی بھرپور سرگرمیوں اور شائقین کی بے پناہ دلچسپی کے ساتھ جاری ہے، مگر میدان کے اندر کی کارکردگی سے زیادہ میدان کے باہر ایک نیا تنازعہ سر اٹھا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم اور انتظامیہ نے میچ آفیشلز، خاص طور پر میچ ریفری کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اگر متنازعہ میچ ریفری کو تبدیل نہ کیا گیا تو ٹیم مزید کوئی میچ کھیلنے سے انکار کر سکتی ہے۔ اس اعلان نے نہ صرف ٹورنامنٹ کی فضا کو کشیدہ کر دیا ہے بلکہ ایشیائی کرکٹ میں ایک نئے بحران کی بھی بنیاد ڈال دی ہے۔
تنازع کی شروعات
ذرائع کے مطابق پاکستان نے میچ ریفری کے رویے اور فیصلوں پر اعتراض اٹھایا ہے۔
- چند میچز میں امپائرنگ اور ریفری کے فیصلوں کو پاکستان کے حق میں غیر منصفانہ قرار دیا گیا۔
- پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کا ماننا ہے کہ فیصلے یکطرفہ تھے اور انہوں نے ٹیم کے مورال پر براہِ راست منفی اثر ڈالا۔
- کھلاڑیوں نے بھی اس پر ناراضی کا اظہار کیا کہ سخت لمحات میں ریفری کے فیصلے نے مخالف ٹیم کو فائدہ پہنچایا۔
یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ایک اہم میچ کے دوران بعض فیصلے براہِ راست میچ کے نتیجے پر اثر انداز ہوئے۔
پاکستان کا مؤقف
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے واضح پیغام دیا ہے کہ:
- متنازعہ میچ ریفری کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔
- آئندہ میچز میں نیوٹرل اور غیر جانبدار ریفری مقرر کیے جائیں۔
- اگر مطالبات نہ مانے گئے تو پاکستان بقیہ میچز کھیلنے سے انکار کر دے گا۔
یہ اعلان صرف ایک دھمکی نہیں بلکہ ٹیم کے کھلاڑی اور انتظامیہ اس مؤقف پر ڈٹ گئے ہیں۔
ایشین کرکٹ کونسل (ACC) پر دباؤ
پاکستانی مؤقف کے بعد ایشین کرکٹ کونسل پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ اس معاملے کو فوری طور پر حل کرے۔
- ACC اس وقت مشکل صورتحال میں ہے کیونکہ ٹورنامنٹ کے تسلسل کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
- بھارت، سری لنکا اور دیگر ممالک کی ٹیمیں چاہتی ہیں کہ کھیل سیاست یا تنازعات کی نذر نہ ہو۔
- تاہم پاکستان کے بغیر ٹورنامنٹ کا وقار اور شائقین کی دلچسپی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
شائقین کا ردعمل
پاکستانی شائقین نے سوشل میڈیا پر اپنی ٹیم کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی ہے۔
- ہیش ٹیگز کے ذریعے ACC اور ICC کو ریفری کے رویے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
- عوامی رائے یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ بار بار ناانصافی ہوتی رہی ہے اور اب سخت موقف اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
- کچھ شائقین نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان ٹورنامنٹ چھوڑ دیتا ہے تو یہ ACC کی ساکھ کے لیے بڑا دھچکا ہوگا۔
Also read :ایشیا کپ میں بھارت سے شکست کا ذمہ دار بابراعظم؟ کرکٹ ماہرین اور شائقین کی آراء
کھلاڑیوں کی رائے
ذرائع کے مطابق کھلاڑیوں کا مورال اس تنازعے کے بعد متاثر ہوا ہے۔
- کئی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی محنت کا پھل منصفانہ فیصلوں کی صورت میں چاہتے ہیں۔
- بابر اعظم اور دیگر سینئر کھلاڑیوں نے بھی انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ غیر جانبدار آفیشلز کے بغیر کھیلنا ممکن نہیں۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ٹیم ایک متحدہ مؤقف پر قائم ہے۔
بھارت اور دیگر ٹیموں کا ردعمل
اگرچہ باضابطہ ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا، لیکن بھارتی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اس تنازع کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔
- کچھ نے کہا کہ پاکستان کھیل کے بہانے ٹورنامنٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
- دوسری جانب چند غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا کہ امپائرنگ اور ریفری کے فیصلوں پر بار بار سوالات اٹھنا واقعی اصلاحات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
تاریخی پس منظر
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے آفیشلز کے فیصلوں پر اعتراض کیا ہو۔ ماضی میں بھی متعدد بار ایسے تنازعات سامنے آ چکے ہیں:
- 1990 کی دہائی میں کئی میچز میں امپائرنگ پر سوال اٹھے تھے۔
- حالیہ برسوں میں بھی بھارت کے خلاف میچز میں ریویو سسٹم کے استعمال پر اختلافات دیکھے گئے۔
اس تاریخی تناظر میں یہ معاملہ پاکستان کے لیے ایک “سرخ لکیر” کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
ممکنہ نتائج
اگر ACC پاکستان کے مطالبات نہ مانے تو کئی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں:
کرکٹ ماہرین کی رائے
کرکٹ ماہرین اس معاملے پر دو حصوں میں تقسیم ہیں:
- کچھ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا موقف بالکل درست ہے کیونکہ کھیل میں شفافیت سب سے اہم ہے۔
- دوسری رائے یہ ہے کہ ٹورنامنٹ کے بیچ میں اس طرح کے فیصلے کھیل کے حسن کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔
نتیجہ
ایشیا کپ 2025 اب صرف کرکٹ کا ٹورنامنٹ نہیں رہا بلکہ ایک بڑے تنازعے کا مرکز بن گیا ہے۔ پاکستان کے مطالبات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ٹیم کسی بھی قیمت پر ناانصافی قبول نہیں کرے گی۔ اگر ACC نے اس معاملے کو فوری طور پر حل نہ کیا تو ٹورنامنٹ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ ایک قومی وقار کا معاملہ بھی ہے۔ پاکستان کے اس مؤقف نے ایشیائی کرکٹ کے لیے ایک نیا سوال کھڑا کر دیا ہے: کیا کھیل شفافیت کے بغیر جاری رہ سکتا ہے؟