Advertisement

بے حس بیٹیوں نے اپنے باپ کی موت کا وی لاگ بنا کر شیئر کر دیا، افسوسناک انکشاف

سوشل میڈیا نے آج کی دنیا کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے، مگر اس کے منفی پہلو بھی روز بہ روز سامنے آ رہے ہیں۔ شہرت اور لائکس کے لالچ میں بعض افراد اخلاقیات اور انسانی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک افسوسناک واقعہ منظر عام پر آیا جس نے ہر کسی کو حیران اور دکھی کر دیا۔ بیٹیوں نے اپنے باپ کی موت کا وی لاگ بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ یہ انکشاف نہ صرف خاندان کی نجی زندگی میں بے حسی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا انسانیت اور جذبات کو اب شہرت کے پیچھے قربان کیا جا رہا ہے؟

Advertisement

واقعے کی تفصیل

  • میڈیا رپورٹس کے مطابق، چند نوجوان لڑکیوں نے اپنے والد کی موت کے بعد اس غم کو نجی رکھنے کے بجائے وی لاگ بنا کر عوامی پلیٹ فارم پر ڈال دیا۔
  • ویڈیو میں انہوں نے اپنے والد کے آخری لمحات اور بعد کے مناظر دکھائے۔
  • اس وی لاگ کو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا گیا جس پر ملا جلا ردِعمل سامنے آیا۔

عوامی ردِعمل

  1. غم و غصہ اور افسوس:
    زیادہ تر لوگوں نے اس حرکت پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ عوام کا کہنا تھا کہ موت جیسے سنجیدہ موقع کو تفریح یا کانٹینٹ بنانے کے لیے استعمال کرنا غیر انسانی عمل ہے۔
  2. تنقید:
    کئی صارفین نے ان بیٹیوں کو “بے حس” اور “شہرت کے بھوکے” قرار دیا۔
  3. ہمدردی:
    کچھ افراد نے یہ بھی کہا کہ شاید وہ لڑکیاں اپنے والد کی یاد کو محفوظ کرنا چاہتی تھیں، مگر یہ عمل پھر بھی غیر اخلاقی تھا کیونکہ یہ عوامی سطح پر دکھایا گیا۔

ماہرین کی رائے

  • سوشیالوجسٹ: کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے انسانوں کی ترجیحات بدل دی ہیں۔ لوگ لائکس، ویوز اور فالوورز کے لیے ہر حد پار کر رہے ہیں۔
  • ماہرِ نفسیات: کا کہنا ہے کہ موت اور غم جیسے مواقع کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا نہ صرف نفسیاتی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس سے معاشرے میں بے حسی بھی بڑھتی ہے۔
  • علماء کرام: نے اس واقعے کو اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ موت جیسے واقعے پر صبر اور سکون اختیار کرنا چاہیے، نہ کہ اسے تماشہ بنایا جائے۔

اخلاقی اور سماجی پہلو

یہ واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہماری نئی نسل میں بعض افراد کے لیے “کانٹینٹ کریشن” سب سے بڑی ترجیح بن چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں:

  • خاندانی روایات اور احترام ختم ہو رہا ہے۔
  • موت اور غم جیسے سنجیدہ مواقع کو بھی تفریح میں بدل دیا جا رہا ہے۔
  • معاشرتی اقدار کی پامالی بڑھ رہی ہے۔

میڈیا اور وائرل ہونے کا پہلو

  • اس وی لاگ کے سامنے آتے ہی یہ خبر میڈیا کی شہ سرخیوں میں شامل ہوگئی۔
  • یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر اس ویڈیو کے اسکرین شاٹس اور کلپس وائرل ہو گئے۔
  • کئی صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے اسے “انسانیت کی تذلیل” قرار دیا۔

Also read :پاک چین کمپنیوں کا مشترکہ اقدام: پاکستان میں 2 اور 3 پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کا آغاز

قانونی پہلو

  • پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پرائیویسی اور عزتِ نفس کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔
  • ماہرین قانون کے مطابق، کسی کے مرنے کے بعد اس کے نجی لمحات کو اس طرح عام کرنا قابلِ گرفت عمل ہے۔
  • اگرچہ یہ واقعہ براہ راست جرم کی تعریف میں نہیں آتا، مگر اس پر اخلاقی و سماجی دباؤ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔

ماضی کے مشابہ واقعات

  • اس سے قبل بھی کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ حادثات، بیماری یا موت کے لمحات کو کیمرے میں قید کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔
  • مثال کے طور پر، ایک شخص نے اپنے عزیز کی آخری رسومات کو لائیو کر کے لوگوں کی شدید تنقید کا سامنا کیا تھا۔

نئی نسل پر اثرات

  • ایسے واقعات بچوں اور نوجوانوں کے ذہن پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
  • شہرت کے لالچ میں وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ “ویوز” اور “فالوورز” ہی سب کچھ ہیں۔
  • یہ رویہ مستقبل میں معاشرتی ہم آہنگی اور خاندانی تعلقات کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔

سماجی تجزیہ

یہ واقعہ معاشرے کے اُس پہلو کو اجاگر کرتا ہے جہاں اخلاقیات کے بجائے سوشل میڈیا کی دنیا فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی ہے۔

  • آج کے نوجوان اکثر اپنی زندگی کے ہر لمحے کو کیمرے میں محفوظ کرتے ہیں۔
  • یہ عادت ایک طرف یادوں کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے، مگر دوسری طرف احترام اور نجی زندگی کے تقدس کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

مستقبل کی راہیں

  1. آگاہی مہمات: معاشرے میں سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے بارے میں آگاہی پیدا کی جانی چاہیے۔
  2. تعلیمی نصاب: اسکول اور کالجز میں اخلاقیات اور سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال پر نصاب شامل کیا جائے۔
  3. قانون سازی: حکومت کو چاہیے کہ ایسے معاملات پر قانون سازی کرے تاکہ پرائیویسی اور عزتِ نفس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ممکن ہو۔
  4. خاندانی کردار: والدین کو اپنی اولاد کو یہ سکھانا چاہیے کہ ہر موقع کی ایک حرمت ہوتی ہے جسے پامال نہیں کرنا چاہیے۔

نتیجہ

بیٹیوں کی جانب سے اپنے والد کی موت کا وی لاگ بنا کر شیئر کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ عمل نہ صرف اخلاقیات کے خلاف تھا بلکہ اس نے ہمارے سماجی نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔

یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر سوچیں کہ سوشل میڈیا کا درست استعمال کیا ہے اور اس کی حدود کہاں تک ہونی چاہییں۔ اگر معاشرہ اس سمت میں اصلاح نہ کر پایا تو آنے والے وقت میں ہم مزید ایسے دل دہلا دینے والے اور بے حسی پر مبنی واقعات کے گواہ بنیں گے۔

Leave a Comment