پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے سینٹرل کنٹریکٹ کے ڈھانچے میں ایک نئی پالیسی متعارف کرائی ہے جس کے مطابق اب کھلاڑیوں کے لیے کیٹیگری “اے” کی بحالی کارکردگی سے مشروط کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے نے کرکٹرز، ماہرین اور شائقین کے درمیان بحث کو جنم دیا ہے، کیونکہ یہ اقدام براہ راست کھلاڑیوں کی مالی مراعات، مقام اور ان کے کیریئر پر اثر انداز ہوگا۔
پس منظر
پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ ایک ایسا نظام ہے جو کھلاڑیوں کو مالی استحکام اور عزت دیتا ہے۔ یہ کنٹریکٹ مختلف کیٹیگریز پر مشتمل ہوتا ہے جیسے:
- کیٹیگری اے: بہترین اور مستقل کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی۔
- کیٹیگری بی: اچھی کارکردگی دکھانے والے، مگر مستقل مزاجی میں پیچھے رہنے والے کھلاڑی۔
- کیٹیگری سی اور ڈی: ابھرتے ہوئے یا جزوی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی۔
اب تک یہ کیٹیگریز بورڈ کی صوابدید یا سالانہ جائزے کے تحت دی جاتی تھیں، لیکن اب پہلی بار کیٹیگری “اے” کی بحالی کو کھلاڑی کی حالیہ کارکردگی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔
پی سی بی کا موقف
پی سی بی حکام کے مطابق:
“سینٹرل کنٹریکٹ میں کیٹیگری اے کا حصول یا بحالی کسی کھلاڑی کی مستقل اور اعلیٰ کارکردگی سے مشروط ہوگی۔ جو کھلاڑی معیار پر پورا نہیں اتریں گے، انہیں کیٹیگری میں ترقی نہیں دی جائے گی بلکہ ان کی پوزیشن پر نظر ثانی ہوگی۔”
بورڈ نے مزید کہا کہ اس فیصلے کا مقصد کھلاڑیوں کو مزید محنت اور مستقل مزاجی پر آمادہ کرنا ہے۔
کھلاڑیوں پر اثرات
- معاشی اثرات: کیٹیگری “اے” میں شامل کھلاڑی سب سے زیادہ تنخواہ اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اس میں کمی یا تنزلی کھلاڑی کے مالی حالات پر براہ راست اثر ڈالے گی۔
- نفسیاتی دباؤ: کارکردگی کو براہ راست مالی مراعات سے جوڑنے سے کھلاڑیوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
- پیشہ ورانہ رویہ: اس فیصلے سے کھلاڑیوں کو اپنی فٹنس، تکنیکی صلاحیت اور کھیل میں تسلسل پر زیادہ توجہ دینا پڑے گی۔
ماہرین کی رائے
کچھ سابق کرکٹرز اور تجزیہ کار اس فیصلے کو مثبت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے کھلاڑیوں کو یہ پیغام ملے گا کہ صرف نام یا سینئرٹی نہیں بلکہ عملی کارکردگی اہم ہے۔
تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ کھلاڑیوں پر غیر ضروری دباؤ ڈال سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی کھلاڑی عارضی طور پر انجری یا فارم کی کمی کا شکار ہو تو اس کے ساتھ زیادتی ہو سکتی ہے۔
Also read :سچن ٹنڈولکر کا بھارتی کرکٹ بورڈ کی صدارت سے متعلق بیان سامنے آگیا
شائقین کا ردعمل
سوشل میڈیا پر شائقین کی رائے ملی جلی ہے۔
- کچھ نے کہا کہ یہ بہترین اقدام ہے کیونکہ اب صرف “پرفارمرز” ہی اعلیٰ مراعات کے حق دار ہوں گے۔
- دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ نظام کھلاڑیوں کو عدم تحفظ کا شکار کر سکتا ہے اور ٹیم کی یکجہتی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
دیگر ممالک کے نظام سے موازنہ
دنیا کے دیگر کرکٹ بورڈز جیسے آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت میں بھی کھلاڑیوں کی مراعات کارکردگی سے جڑی ہوتی ہیں۔ تاہم وہاں اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کے لیے معاونت، فٹنس بحالی پروگرامز اور نفسیاتی سپورٹ بھی فراہم کی جاتی ہے۔
پی سی بی کے اس نئے ماڈل میں اگر اضافی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو خدشہ ہے کہ کھلاڑیوں کو زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیٹیگری اے میں کون شامل ہیں؟
عام طور پر کیٹیگری “اے” میں کپتان، نائب کپتان، اور وہ کھلاڑی شامل ہوتے ہیں جو تینوں فارمیٹس (ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی) میں کارکردگی دکھا رہے ہوں۔ مثال کے طور پر:
- بابر اعظم
- محمد رضوان
- شاہین شاہ آفریدی
لیکن اب ان کی پوزیشن ہر سال کارکردگی کی بنیاد پر خطرے میں ہوگی۔
کھلاڑیوں کے ممکنہ خدشات
- انجری کے باعث کیٹیگری میں تنزلی کا خوف۔
- ہر میچ کو “کیٹیگری بچاؤ امتحان” سمجھنا۔
- مالی دباؤ سے کارکردگی مزید متاثر ہونے کا امکان۔
مستقبل کے امکانات
پی سی بی کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مستقبل میں صرف وہی کھلاڑی آگے بڑھ سکیں گے جو مستقل مزاج اور کارکردگی میں شاندار ہوں۔ اس سے نئے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کے لیے مواقع بڑھ سکتے ہیں کیونکہ کمزور کارکردگی دکھانے والے سینئرز اپنی جگہ کھو سکتے ہیں۔
نتیجہ
پی سی بی نے سینٹرل کنٹریکٹ کے نظام میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ کیٹیگری “اے” کی بحالی کو کارکردگی سے مشروط کرنے کا فیصلہ اگرچہ کھلاڑیوں کے لیے چیلنج ہے، لیکن یہ پاکستان کرکٹ کو ایک نئی سمت میں لے جا سکتا ہے جہاں میرٹ اور مستقل مزاجی کو اولین ترجیح دی جائے۔ تاہم اس کے ساتھ کھلاڑیوں کو سپورٹ سسٹم فراہم کرنا بھی ضروری ہوگا تاکہ دباؤ اور غیر یقینی صورتحال کے باوجود وہ بہترین کھیل پیش کر سکیں۔
پی سی بی نے واضح کر دیا ہے کہ اب سینٹرل کنٹریکٹ کی سب سے اعلیٰ کیٹیگری صرف ان کھلاڑیوں کو ملے گی جو مسلسل شاندار کارکردگی دکھائیں گے۔ یہ فیصلہ پاکستانی کرکٹ کے لیے ایک نیا دور لا سکتا ہے، مگر اس کے ساتھ کھلاڑیوں کو ذہنی اور مالی دباؤ سے بچانے کے لیے بورڈ کو مزید عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔