Advertisement

ایشیا کپ میں پاکستان کے ساتھ کھیلنے پر بی سی سی آئی کا وضاحتی بیان سامنے آ گیا

ایشیا کپ ہمیشہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تعلقات اور سیاست کا ایک بڑا امتحان رہا ہے۔ ہر بار جب یہ دونوں ٹیمیں کسی بڑے ایونٹ میں آمنے سامنے آتی ہیں تو شائقینِ کرکٹ کے ساتھ ساتھ میڈیا اور کرکٹ بورڈز میں بھی ہلچل مچ جاتی ہے۔ اسی پس منظر میں حال ہی میں بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا ہے جس میں پاکستان کے ساتھ کھیلنے کے حوالے سے پھیلنے والی خبروں پر روشنی ڈالی گئی۔

Advertisement

یہ وضاحتی بیان اس وقت سامنے آیا جب مختلف رپورٹس اور قیاس آرائیاں پھیلنے لگیں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے گریز کرے گا یا کسی متبادل وینیو کی شرط رکھے گا۔ تاہم بی سی سی آئی کے مؤقف نے ان تمام افواہوں کو ایک حد تک واضح کردیا۔ اس مضمون میں ہم اس پورے معاملے کا پس منظر، وضاحتی بیان کی تفصیلات، کرکٹ شائقین کا ردعمل اور مستقبل پر اس کے اثرات پر تفصیلی بات کریں گے۔

پس منظر: پاکستان اور بھارت کے کرکٹ تعلقات

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک تاریخی، سیاسی اور جذباتی حیثیت رکھتا ہے۔ 2008 کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی سیریز نہیں کھیلی گئی، اور صرف آئی سی سی ایونٹس یا ایشیا کپ جیسے ٹورنامنٹس میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آتی ہیں۔

بھارت کی جانب سے اکثر سکیورٹی خدشات اور سیاسی وجوہات کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں جب بھی ایشیا کپ یا ورلڈ کپ قریب آتا ہے، یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کہاں اور کیسے کھیلے گا۔

Also read :عمران خان پر جواد احمد کی کڑی تنقید: “عمران نے ہمیشہ غریبوں کو پاگل بنایا ہے”

تنازعہ کیسے پیدا ہوا؟

ایشیا کپ کے لیے پاکستان کو میزبان ملک مقرر کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا بھارتی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی یا نہیں؟

  • کچھ بھارتی میڈیا رپورٹس نے دعویٰ کیا کہ بی سی سی آئی پاکستان جانے کے حق میں نہیں ہے۔
  • پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے سخت ردعمل آیا کہ اگر بھارت پاکستان نہیں آئے گا تو پھر ایونٹ کے فارمیٹ یا مقام پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔
  • اسی دوران مختلف کرکٹ مبصرین نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا کھیل سیاست کی نذر ہو رہا ہے؟

بی سی سی آئی کا وضاحتی بیان

ان بڑھتی ہوئی قیاس آرائیوں کے بعد بی سی سی آئی نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا:

  1. بھارت ہمیشہ ایشیا کپ جیسے ایونٹس کو اہمیت دیتا ہے اور یہ ٹورنامنٹ ایشین کرکٹ کو یکجا کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔
  2. بھارتی بورڈ نے کہا کہ ٹیم کی شرکت کے فیصلے حکومت ہند کی پالیسی اور ہدایات کے تحت ہوتے ہیں۔
  3. وضاحت دی گئی کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے پر کوئی ذاتی یا ادارہ جاتی اختلاف نہیں ہے، بلکہ اصل فیصلہ سکیورٹی اور حکومتی اجازت پر منحصر ہوگا۔
  4. بی سی سی آئی نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور کرکٹ کو فروغ دینا ان کی اولین ترجیح ہے۔

پاکستان کا مؤقف

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس وضاحت کو سراہتے ہوئے کہا کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ پی سی بی کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ کھیل کے دروازے کھلے رکھے ہیں اور بھارتی ٹیم کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کے سکیورٹی خدشات حقیقی ہیں تو انہیں باضابطہ طور پر اے سی سی کے ساتھ شیئر کیا جانا چاہیے، تاکہ متبادل حل تلاش کیا جا سکے۔

عوامی اور شائقین کا ردعمل

بی سی سی آئی کے وضاحتی بیان کے بعد شائقینِ کرکٹ میں ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا:

  • پاکستانی شائقین نے کہا کہ بھارت ہمیشہ سیاسی دباؤ کو جواز بناتا ہے۔
  • بھارتی شائقین میں سے کچھ نے کہا کہ کھیل کو ہر حال میں ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں قوموں کے عوام کو قریب لاتا ہے۔
  • کچھ نے وضاحتی بیان کو مبہم قرار دیا اور کہا کہ بی سی سی آئی نے کوئی حتمی بات نہیں کی بلکہ معاملہ حکومت پر ڈال دیا ہے۔

کرکٹ ماہرین کی رائے

کرکٹ ماہرین کے مطابق یہ بیان اگرچہ مثبت اشارہ ہے لیکن حتمی فیصلہ اب بھی غیر یقینی ہے۔

  • کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بی سی سی آئی حکومت کی پالیسی کو بہانہ بنا کر کھیل سے گریز کرتا ہے۔
  • دوسری طرف یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ کھیل کے دوران کسی ناخوشگوار واقعے کی ذمہ داری بھی حکومت اور بورڈز پر عائد ہوگی، اس لیے احتیاط ناگزیر ہے۔

ایشیا کپ پر اثرات

اس تنازعے اور وضاحت کے بعد ایشیا کپ کے انعقاد پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے:

  1. اگر بھارت پاکستان نہیں آتا تو کیا میچ کسی نیوٹرل وینیو پر ہوگا؟
  2. کیا ایشیا کپ کا فارمیٹ بدلنے کی ضرورت پڑے گی؟
  3. کیا اس صورتحال سے ایونٹ کی مقبولیت اور اسپرٹ متاثر ہوگی؟

یہ سوالات اب بھی موجود ہیں اور ان کا جواب آنے والے دنوں میں سامنے آئے گا۔

کھیل یا سیاست؟

یہ سوال سب سے اہم ہے کہ کیا کرکٹ کو سیاسی مسائل کی بھینٹ چڑھنا چاہیے؟ کئی ماہرین اور شائقین اس بات پر متفق ہیں کہ کھیل عوامی رابطے اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔ اگر دونوں ممالک کھیل کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں تو اسے موقع دیا جانا چاہیے۔

مستقبل کا لائحہ عمل

  • بی سی سی آئی نے گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔
  • پی سی بی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ میزبان ہیں اور اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔
  • ایشین کرکٹ کونسل کو اب ایک ایسا حل نکالنا ہوگا جو سب کو قابلِ قبول ہو۔

نتیجہ

بی سی سی آئی کے وضاحتی بیان نے وقتی طور پر تناؤ کم ضرور کیا ہے، مگر حتمی صورتحال اب بھی غیر واضح ہے۔ یہ بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت براہِ راست کھیلنے سے انکار نہیں کر رہا بلکہ معاملہ حکومتی اجازت پر چھوڑ رہا ہے۔

شائقینِ کرکٹ کی امید یہی ہے کہ ایشیا کپ اپنے اصل جذبے کے ساتھ منعقد ہو اور پاکستان و بھارت کے درمیان کرکٹ شائقین کو وہی جوش و خروش دیکھنے کو ملے جو ہمیشہ ان میچوں کی پہچان رہا ہے۔

Leave a Comment