Advertisement

’میرے ہیڈ کوچ بننے کے بعد پاکستانی ٹیم میں بہتری آئی ہے: مائیک ہیسن‘‘

پاکستانی کرکٹ ہمیشہ سے اپنے شائقین کے لیے جوش، جذبے اور غیر متوقع نتائج کے باعث مشہور رہی ہے۔ کبھی ٹیم ایک بڑی جیت سمیٹ ک قوم کو خوشی دیتی ہے اور کبھی اچانک شکست دے کر مایوسی کا سبب بنتی ہے۔ اس تمام تر اتار چڑھاؤ کے دوران کوچنگ اسٹاف کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’میرے ہیڈ کوچ بننے کے بعد پاکستانی ٹیم میں نمایاں بہتری آئی ہے۔‘‘ ان کے اس دعوے نے نہ صرف شائقین کرکٹ بلکہ ماہرین کو بھی بحث پر مجبور کر دیا ہے کہ واقعی ان کے دور میں ٹیم میں کیا مثبت تبدیلیاں آئیں؟

Advertisement

مائیک ہیسن کی تعیناتی کا پس منظر

مائیک ہیسن کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے اور وہ کرکٹ کے ایک تجربہ کار کوچ مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس سے قبل نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو کامیابیوں کی راہ پر ڈالا اور عالمی سطح پر اپنی حکمتِ عملی اور پرسکون رویے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ جب پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) نے ان کو ہیڈ کوچ بنایا تو اس وقت ٹیم کئی مسائل کا شکار تھی:

  • کھلاڑیوں کی مستقل کارکردگی کا فقدان۔
  • ٹیم کے اندرونی اختلافات۔
  • فٹنس اور ڈسپلن کے مسائل۔
  • اہم میچز میں دباؤ برداشت نہ کرنے کی کمزوری۔

ایسے میں مائیک ہیسن کی ذمہ داری تھی کہ وہ ٹیم کو ایک بہتر سمت میں لے جائیں۔

ہیسن کا دعویٰ: ٹیم میں بہتری

اپنے حالیہ بیان میں ہیسن نے کہا کہ جب سے وہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ بنے ہیں، ٹیم کی کارکردگی میں واضح بہتری آئی ہے۔ ان کے مطابق:

  1. کھلاڑیوں کی فٹنس اور ڈسپلن میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔
  2. نوجوان کرکٹرز کو زیادہ مواقع دیے گئے ہیں، جس سے ٹیم کا پول وسیع ہوا ہے۔
  3. دباؤ والے لمحات میں ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے، خاص طور پر بڑے میچز میں۔
  4. ٹیم کا مجموعی ماحول زیادہ مثبت اور پروفیشنل ہو گیا ہے۔

کارکردگی کے اعداد و شمار

ہیسن کے دعوے کو جانچنے کے لیے ٹیم کی حالیہ کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو کچھ مثبت پہلو ضرور سامنے آتے ہیں:

  • پاکستانی ٹیم نے گزشتہ چند سیریز میں بڑے ٹارگٹ کامیابی سے حاصل کیے۔
  • ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ٹیم نے پچھلے سال کے مقابلے میں بہتر نتائج دیے۔
  • کچھ نوجوان کھلاڑی جیسے کہ صائم ایوب اور احسان اللہ اب ٹیم میں اپنی جگہ بنانے لگے ہیں۔
  • باؤلنگ لائن، جو ہمیشہ سے پاکستان کی طاقت رہی ہے، اب پہلے سے زیادہ مستحکم دکھائی دیتی ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیم کو کچھ بڑے میچز میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، جس پر تنقید بھی ہوئی۔

کھلاڑیوں پر اثرات

کچھ کھلاڑیوں نے میڈیا میں یہ بات تسلیم کی کہ مائیک ہیسن کا اندازِ کوچنگ مختلف ہے۔

  • وہ زیادہ تر کھلاڑیوں کو اعتماد دینے اور ان کی ذہنی تربیت پر زور دیتے ہیں۔
  • انہوں نے کھلاڑیوں کو ’’خوف سے آزاد‘‘ کر کے کھیلنے کی تلقین کی ہے۔
  • بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور محمد رضوان جیسے سینئر کھلاڑیوں نے کہا ہے کہ کوچ نے ڈریسنگ روم کا ماحول مثبت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ماہرین کی رائے

پاکستانی کرکٹ کے ماہرین اور سابق کھلاڑیوں نے بھی ہیسن کے دعوے پر تبصرے کیے ہیں:

  • کچھ نے کہا کہ واقعی ٹیم میں ڈسپلن اور فٹنس بہتر ہوئی ہے۔
  • جبکہ کچھ نے نشاندہی کی کہ ابھی بھی ٹیم بڑے ایونٹس میں مستقل مزاجی نہیں دکھا پا رہی۔
  • ایک سابق کپتان نے کہا: ’’کوچ کا کردار اہم ہے لیکن جیتنے کے لیے کھلاڑیوں کو خود بھی میدان میں ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔‘‘

شائقین کا ردعمل

پاکستانی شائقین کرکٹ ہمیشہ سے اپنی ٹیم کے لیے جذباتی رہے ہیں۔ ہیسن کے بیان پر عوامی ردعمل ملا جلا ہے۔

  • کچھ نے کہا کہ واقعی کوچ کی موجودگی میں ٹیم میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔
  • کچھ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیانات کے بجائے نتائج کی ضرورت ہے۔‘‘
  • سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ٹیم میں بہتری آئی ہے تو بڑے ایونٹس میں ہم ابھی تک جیت کیوں نہیں سکے؟

کوچنگ اسٹائل

مائیک ہیسن کے کوچنگ اسٹائل کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:

  1. پرسکون رویہ: وہ دباؤ کے لمحات میں بھی کھلاڑیوں پر چیخنے چلانے کے بجائے حوصلہ دیتے ہیں۔
  2. حکمتِ عملی: مخالف ٹیم کے خلاف پلاننگ میں وہ بہت باریک بینی سے کام کرتے ہیں۔
  3. ٹیلنٹ پر فوکس: نوجوان کھلاڑیوں کو سامنے لانا اور ان کو اعتماد دینا ان کی خاصیت ہے۔
  4. ٹیم کلچر: وہ ڈریسنگ روم میں باہمی عزت اور تعاون کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔

مستقبل کی حکمتِ عملی

ہیسن نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ان کا مقصد صرف وقتی بہتری نہیں بلکہ ٹیم کو مستقل بنیادوں پر مضبوط بنانا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے:

  • ڈومیسٹک کرکٹ پر فوکس بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
  • فٹنس کے لیے عالمی معیار اپنانے کی بات کی۔
  • ذہنی مضبوطی کے لیے کھلاڑیوں کو ماہر نفسیات کے ساتھ سیشنز کروانے کا منصوبہ بتایا۔

چیلنجز

اگرچہ بہتری کی بات کی جا رہی ہے، لیکن کچھ بڑے چیلنجز ابھی بھی موجود ہیں:

  • بڑے ایونٹس جیسے ورلڈ کپ اور ایشیا کپ میں مستقل مزاجی کی کمی۔
  • بیٹنگ لائن کا دباؤ میں ٹوٹ جانا۔
  • بیک اپ کھلاڑیوں کی کمی۔
  • کرکٹ بورڈ کے اندرونی معاملات اور سیاسی اثرات۔

نتیجہ

مائیک ہیسن کا یہ دعویٰ کہ ’’میرے ہیڈ کوچ بننے کے بعد پاکستانی ٹیم میں بہتری آئی ہے‘‘ کسی حد تک درست دکھائی دیتا ہے۔ ان کے دور میں ٹیم نے ڈسپلن، فٹنس اور کچھ نتائج میں مثبت تبدیلیاں دکھائی ہیں۔ تاہم ابھی بھی بڑے ایونٹس میں کامیابی کی کمی ان کے لیے سب سے بڑا امتحان ہے۔

پاکستانی شائقین کرکٹ ہمیشہ نتائج پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ہیسن کی حکمتِ عملی ٹیم کو عالمی سطح پر بڑے اعزازات دلانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

Leave a Comment