پاکستان کے شہری مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے نتیجے میں زمین کے غیر قانونی استعمال کا ہے۔ بڑے شہروں میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار نے نہ صرف زمینوں پر قبضے کو فروغ دیا ہے بلکہ لاکھوں شہریوں کو متاثر بھی کیا ہے۔ اس حوالے سے جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ناجائز ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے والوں کے ساتھ ساتھ وہ سرکاری ادارے اور افسران بھی برابر کے مجرم ہیں جنہوں نے این او سی (NOC) جاری کیں۔ ان سب کے خلاف مقدمہ ہونا چاہیے۔
یہ بیان ایک اہم موقع پر سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں غیر قانونی سوسائٹیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور عوام اس مسئلے پر شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔
ناجائز ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا بڑھتا ہوا رجحان
گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا رجحان تیزی سے بڑھا۔ سرمایہ کاروں نے لوگوں کے خوابوں کو بیچنے کے لیے سستے پلاٹوں کے نام پر سوسائٹیز لانچ کیں، لیکن حقیقت میں ان کے پاس نہ زمین کا مکمل ریکارڈ موجود تھا اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کے لیے ضروری اجازت نامے۔
ایسی سوسائٹیز نے ہزاروں شہریوں کو متاثر کیا جو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر گھر بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔
حافظ نعیم کا مؤقف
حافظ نعیم الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا:
“یہ معاملہ صرف ان افراد تک محدود نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے ناجائز ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی بلکہ ان اداروں اور افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے این او سی جاری کی۔ یہ لوگ عوام کے مجرم ہیں کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر غلط اجازت نامے دیے اور غیر قانونی عمل کو تحفظ فراہم کیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں ہزاروں لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور ان کے ساتھ سنگین فراڈ ہوا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس گھناؤنے کاروبار کو روکا جائے اور ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے۔
عوامی نقصان اور مسائل
غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے باعث عوام کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں:
- شہری اپنی زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔
- سوسائٹی کے نام پر فروخت کی گئی زمین بعد میں یا تو سرکاری زمین نکلتی ہے یا کسی اور کی ملکیت۔
- سڑکیں، پانی، بجلی اور نکاسی جیسے بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔
- مقدمات اور قانونی جھگڑوں میں برسوں ضائع ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ نعیم نے اس بات پر زور دیا کہ اس کاروبار کو روکنے کے لیے سخت قانونی کارروائی لازمی ہے۔
سرکاری اداروں کی ذمہ داری
پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کرنے کے لیے سرکاری اداروں سے این او سی لینا لازمی ہوتا ہے۔ یہ این او سی دراصل اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ سوسائٹی کے پاس زمین کی ملکیت، منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے تمام قانونی تقاضے پورے ہیں۔
لیکن حافظ نعیم نے نشاندہی کی کہ کئی بار اداروں نے ذاتی مفاد، رشوت یا سیاسی دباؤ کے تحت این او سی جاری کیے۔ اس کے نتیجے میں غیر قانونی سوسائٹیز کو قانونی تحفظ مل گیا اور عوام دھوکہ کھا گئے۔
عدالتی اور حکومتی اقدامات
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کئی بار اس معاملے پر از خود نوٹس لے چکی ہیں۔ عدالتوں نے یہ بھی کہا کہ غیر قانونی سوسائٹیز بند کی جائیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ تاہم عملی طور پر یہ مسئلہ ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔
کچھ صوبائی حکومتوں نے غیر قانونی سوسائٹیز کے خلاف آپریشنز شروع کیے، لیکن یہ اقدامات عارضی ثابت ہوئے۔ حافظ نعیم نے کہا کہ جب تک این او سی دینے والوں کو بھی سزا نہیں ملے گی، یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔
کرپشن اور اختیارات کا غلط استعمال
پاکستان میں زمین کے معاملات ہمیشہ سے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے جڑے رہے ہیں۔ بیوروکریسی اور متعلقہ ادارے اکثر اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں اور بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ ملی بھگت کر لیتے ہیں۔
حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ یہ صرف چند افراد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک پورا نیٹ ورک ہے جو عوام کو لوٹنے میں ملوث ہے۔ اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
شہریوں کے مطالبات
غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز سے متاثر ہونے والے شہریوں نے کئی بار احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کی رقم واپس دلائی جائے یا متبادل زمین فراہم کی جائے۔ لیکن بیشتر معاملات میں عوام کو طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی، جس کا نتیجہ اکثر مایوسی کی صورت میں نکلا۔
اب جب حافظ نعیم جیسے عوامی رہنما اس مسئلے کو بھرپور انداز میں اٹھا رہے ہیں تو عوام کو امید ہے کہ شاید ان کے مسائل پر کوئی سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
ماہرین کی آراء
ماہرینِ قانون اور شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ:
- غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں۔
- این او سی دینے والے افسران پر مقدمہ چلا کر انہیں ملازمت سے برطرف کیا جانا چاہیے۔
- عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے متاثرہ افراد کو معاوضہ دیا جائے۔
- مستقبل میں این او سی کا عمل شفاف اور ڈیجیٹل طریقے سے ہونا چاہیے تاکہ رشوت اور دباؤ کا خاتمہ ہو۔
Also read :ملک بھر میں آٹا مزید مہنگا، عوام پریشان: نئے ریٹ جاری
مستقبل کا لائحہ عمل
حافظ نعیم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر حکومت اور ادارے واقعی عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر عوامی اعتماد مزید مجروح ہوگا اور معاشرتی بداعتمادی میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور اگر ضرورت پڑی تو متاثرہ شہریوں کے ساتھ عدالتوں اور سڑکوں پر احتجاج بھی کیا جائے گا۔
نتیجہ
غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز پاکستان کے شہری مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان کا یہ بیان ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ انہوں نے صرف مافیا کو نہیں بلکہ ان اداروں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے جو عوام کے محافظ ہونے کے باوجود دھوکہ دہی میں شریک ہیں۔
اگر واقعی ان تجاویز پر عمل کیا جائے اور این او سی جاری کرنے والے افسران پر مقدمات قائم کیے جائیں تو یہ پاکستان میں ایک نئی مثال قائم کرے گا۔ اس سے عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور مستقبل میں اس قسم کے فراڈ کو روکنے میں مدد ملے گی۔