Advertisement

بابراعظم کا منفرد مقام اور راشد لطیف کا دوٹوک مؤقف

پاکستانی کرکٹ ہمیشہ سے شائقین کے دلوں پر راج کرتی آئی ہے۔ یہاں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ جذبات، امیدوں اور قومی پہچان کا حصہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی لیجنڈری کھلاڑی آئے اور گئے، مگر ہر دور میں کچھ کھلاڑی ایسے ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے سب کو متاثر کر دیتے ہیں۔ آج کل کے دور میں یہ اعزاز بابراعظم کو حاصل ہے۔

Advertisement

حالیہ دنوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور کرکٹ ماہر راشد لطیف نے ایک بیان دیا جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوا:

“بابراعظم اگر ایک ٹانگ پر بھی کرکٹ کھیلے تب بھی موجودہ ٹیم میں اس کے لیول کا کوئی کھلاڑی نہیں ہے۔”

یہ بیان نہ صرف بابراعظم کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے بلکہ موجودہ پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر بھی ایک تنقید ہے۔

بابراعظم: پاکستان کرکٹ کا ستارہ

بابراعظم گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان کے لیے سب سے شاندار بلے باز کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے:

  • دنیا بھر میں ون ڈے اور ٹی20 فارمیٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں شامل۔
  • کئی مواقع پر نمبر ون بیٹسمین کا اعزاز۔
  • مسلسل پرفارمنس، جس نے انہیں ویرات کوہلی، جو روٹ اور کین ولیمسن جیسے کھلاڑیوں کے برابر لا کھڑا کیا۔

بابراعظم کی خاص بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف کلاسک بیٹنگ اسٹائل رکھتے ہیں بلکہ ہر فارمیٹ میں ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پاکستان کرکٹ کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔

راشد لطیف کا بیان: ایک حقیقت یا مبالغہ؟

راشد لطیف پاکستان کرکٹ میں ایک معتبر نام ہیں۔ انہوں نے اپنی وکٹ کیپنگ اور تجزیاتی مہارت سے ہمیشہ شائقین کو متاثر کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ “بابر ایک ٹانگ پر بھی کھیلے تب بھی باقی ٹیم سے بہتر ہے” دراصل کئی حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے:

  1. پاکستانی ٹیم میں مستقل مزاجی کی کمی ہے۔
  2. زیادہ تر کھلاڑی دباؤ میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
  3. بابراعظم واحد کھلاڑی ہیں جو دنیا کی کسی بھی ٹیم کے خلاف اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔

Also read :محمد رضوان سے ون ڈے کی کپتانی واپس لینے کا امکان، سلمان علی آغا مضبوط امیدوار

موجودہ ٹیم کا تجزیہ

پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اکثر “ان کنسسٹنٹ” یعنی غیر مستقل مزاج کہا جاتا ہے۔ ایک دن وہ دنیا کی بہترین ٹیم کو ہرا دیتے ہیں اور اگلے دن کمزور حریف کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ موجودہ اسکواڈ پر نظر ڈالیں تو چند بڑے مسائل سامنے آتے ہیں:

  • بیٹنگ لائن کمزور: ابتدائی بلے باز اکثر ناکام رہتے ہیں، جس سے دباؤ مڈل آرڈر پر آ جاتا ہے۔
  • بولنگ میں تنوع کی کمی: فاسٹ بولرز پر انحصار زیادہ ہے، مگر اسپنرز خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پاتے۔
  • فٹنس کے مسائل: کئی کھلاڑی بار بار انجری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
  • ذہنی دباؤ: ہار کے بعد ٹیم کا حوصلہ گر جاتا ہے اور کم بیک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان حالات میں بابراعظم کی مستقل کارکردگی ہی ٹیم کو سہارا دیتی ہے۔

بابراعظم کا موازنہ دیگر کھلاڑیوں سے

اگر ہم بابراعظم کا موازنہ موجودہ ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں سے کریں تو واضح فرق سامنے آتا ہے۔

  • وہ نہ صرف سب سے زیادہ رنز بناتے ہیں بلکہ اکثر مواقع پر ٹیم کو شکست سے بچاتے ہیں۔
  • ان کا بیٹنگ اوسط دیگر کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ ہے۔
  • وہ مشکل ترین حالات میں بھی اعتماد نہیں کھوتے، جو ایک بڑے کھلاڑی کی پہچان ہے۔

اسی لیے راشد لطیف کا بیان مبالغہ آرائی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔

عوامی رائے اور سوشل میڈیا کا ردعمل

سوشل میڈیا پر شائقین کی ایک بڑی تعداد نے راشد لطیف کی اس بات سے اتفاق کیا۔ کئی صارفین نے کہا کہ اگر بابراعظم ٹیم میں نہ ہوں تو پاکستان کے لیے جیت کے امکانات اور بھی کم ہو جاتے ہیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ ٹیم زیادہ تر بابر پر انحصار کرتی ہے اور دوسرے کھلاڑی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر پاتے۔

البتہ کچھ ناقدین نے یہ بھی کہا کہ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے، اور صرف ایک کھلاڑی پر انحصار کر کے بڑے ٹورنامنٹس جیتنا ممکن نہیں۔ ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو بھی بابر کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

بابراعظم پر دباؤ

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ٹیم کا انحصار زیادہ تر ایک کھلاڑی پر ہو تو دباؤ سب سے زیادہ اسی پر پڑتا ہے۔ بابراعظم اکثر یہ دباؤ سہہ بھی جاتے ہیں مگر کبھی کبھار یہ ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ شائقین کو بھی چاہیے کہ وہ ان سے غیر حقیقی توقعات نہ رکھیں بلکہ ٹیم کے باقی کھلاڑیوں پر بھی دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔

لیڈرشپ اور بابر کی کپتانی

بابراعظم کی کپتانی پر بھی کئی بار سوال اٹھے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق وہ ایک بہترین بلے باز ہیں مگر بطور کپتان ابھی انہیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، ایک بات طے ہے کہ بابر کی موجودگی ہی ٹیم کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ اگر وہ میدان میں ہوں تو مخالف ٹیم بھی ان سے محتاط رہتی ہے۔

راشد لطیف جیسے ماہرین کا کردار

پاکستانی کرکٹ میں سابق کھلاڑی اکثر نوجوانوں کے لیے رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ راشد لطیف جیسے تجزیہ کار کھلے دل سے تنقید اور تعریف کرتے ہیں۔ ان کا یہ بیان دراصل ٹیم کے لیے ایک پیغام ہے کہ صرف بابر پر انحصار کر کے جیتنا ممکن نہیں، باقی کھلاڑیوں کو بھی ان کے لیول پر آنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

کیا واقعی بابر کے لیول کا کوئی نہیں؟

یہ سوال اہم ہے۔ فی الحال پاکستانی ٹیم میں ایسا کوئی کھلاڑی نظر نہیں آتا جو مسلسل بابراعظم کے برابر پرفارمنس دے رہا ہو۔ ہاں، کچھ نوجوان ٹیلنٹ جیسے محمد رضوان یا عبداللہ شفیق امید دلاتے ہیں، مگر مستقل مزاجی میں وہ بابر سے پیچھے ہیں۔ اس لیے فی الحال یہ بات درست لگتی ہے کہ بابر کا متبادل ٹیم میں موجود نہیں۔

راشد لطیف کا یہ بیان کہ “بابر ایک ٹانگ پر بھی کھیلے تو ٹیم میں اس کے برابر کوئی نہیں” پاکستانی کرکٹ کی حقیقت بیان کرتا ہے۔ بابر کی صلاحیتوں کا اعتراف اپنی جگہ مگر باقی کھلاڑیوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ٹیم صرف ایک کھلاڑی پر نہیں بلکہ سب کی مشترکہ کارکردگی سے بنتی ہے۔

بابراعظم نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا ستارہ ہیں، مگر اگر باقی کھلاڑی بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں تو پاکستان ایک بار پھر دنیا کی نمبر ون ٹیم بن سکتا ہے۔

Leave a Comment