Advertisement

پختونوں کی خدمت اور سیاستدانوں کا کردار: دعوے یا حقیقت؟

پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کی طویل تاریخ ہے، جہاں عوامی مسائل کو جلسوں اور بیانات میں تو بارہا اجاگر کیا جاتا ہے مگر عملی میدان میں شاذونادر ہی کوئی سیاسی شخصیت عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا پر ایک جملہ وائرل ہوا:

Advertisement

“کوئی سیا سی لیڈر بیلچہ اُٹھا کر پختونوں کی مدد کرتا نظر آیا تو بتائیے گا پلیززز”

یہ جملہ عوامی سوچ اور سیاسی قیادت پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ خاص طور پر پختون خطے کے عوام، جو دہائیوں سے قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور پسماندگی کا سامنا کر رہے ہیں، اکثر سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر کب کوئی سیاسی رہنما ان کے ساتھ زمین پر عملی کام کرتا دکھائی دے گا؟

پختون خطے کے مسائل: ایک مختصر جائزہ

پختون خطے میں مسائل کی فہرست طویل ہے:

  • قدرتی آفات جیسے زلزلے، سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریاں۔
  • دہشت گردی اور آپریشنز کے اثرات، جس نے معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔
  • تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی کمی۔
  • بنیادی ڈھانچے کی کمزوری، خاص طور پر سڑکیں، بجلی اور پانی کی فراہمی۔
  • بے روزگاری اور صنعتوں کی کمی۔

ایسے حالات میں عوام کی یہ توقع بالکل جائز ہے کہ سیاسی رہنما صرف دعوے نہ کریں بلکہ عملی طور پر ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔

سیاسی لیڈرز اور عملی خدمت: حقیقت یا فسانہ؟

پاکستانی سیاست میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی آفات آتی ہیں تو عوام سب سے پہلے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، مقامی نوجوان اور رضاکار سامنے آتے ہیں، مگر سیاسی رہنما زیادہ تر فوٹو سیشن یا بیانات تک محدود رہتے ہیں۔

بیلچہ اٹھا کر ملبہ ہٹانا، سیلاب میں متاثرین کے خیمے لگانا یا خود جا کر خوراک تقسیم کرنا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ زیادہ تر یہ کام یا تو فوج، ریسکیو ٹیمیں یا مقامی تنظیمیں کرتی ہیں۔

عوام کی توقعات اور مایوسی

پختون عوام نے ہمیشہ یہ امید رکھی کہ ان کے مسائل کو سیاسی قیادت ترجیح دے گی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ امیدیں کمزور ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام طنزیہ انداز میں پوچھتے ہیں:

“کبھی کسی لیڈر کو بیلچہ اٹھا کر ہمارے ساتھ کام کرتے دیکھا ہے؟”

یہ جملہ مایوسی کے ساتھ ساتھ ایک سخت حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ قیادت اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھ چکا ہے۔

Also read :محمد رضوان سے ون ڈے کی کپتانی واپس لینے کا امکان، سلمان علی آغا مضبوط امیدوار

سیاست اور شوبازی کا عنصر

پاکستان میں اکثر سیاسی لیڈر آفات کے وقت صرف مختصر دورے کرتے ہیں، میڈیا کے سامنے متاثرین کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ اس عمل کو عوام “شوبازی” قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سیاستدان واقعی عوام کے خیر خواہ ہیں تو انہیں عملی اقدامات سے یہ ثابت کرنا ہوگا، نہ کہ صرف بیانات اور دعوؤں سے۔

پختون عوام کی قربانیاں

یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پختون خطے کے لوگوں نے ملک کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے یہی لوگ تھے۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے، معیشت تباہ ہوئی اور سیکڑوں اسکول ویران ہو گئے۔

ایسے حالات میں ان کا یہ سوال بالکل جائز ہے کہ سیاسی قیادت ان کے ساتھ حقیقی معنوں میں کب کھڑی ہوگی؟

لیڈرشپ کا اصل معیار

دنیا بھر میں حقیقی قیادت وہی سمجھی جاتی ہے جو مشکل وقت میں عوام کے ساتھ عملی طور پر شامل ہو۔ چاہے وہ آفات ہوں، غربت یا کوئی اور چیلنج، حقیقی لیڈر زمین پر عوام کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

  • ترکی میں زلزلے کے دوران سیاسی قیادت متاثرین کے درمیان موجود رہی۔
  • جاپان میں سیلاب کے وقت وزراء عوام کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

پاکستان میں یہ مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام لیڈرشپ کو اکثر صرف اقتدار کے حصول کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔

میڈیا اور عوامی شعور

سوشل میڈیا نے عوامی شعور بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب کوئی بھی سیاسی رہنما اگر صرف زبانی دعوے کرے تو لوگ فوراً سوال اٹھاتے ہیں اور طنزیہ تبصرے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ جملہ “بیلچہ اُٹھا کر مدد” عوامی زبان میں ایک استعارہ بن چکا ہے، جو اصل خدمت اور نمائشی سیاست کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری

پاکستان کی ہر بڑی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوامی خدمت کے لیے میدان میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ:

  • آفات کے وقت عوام سب سے پہلے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔
  • جماعتوں کی تنظیمی صلاحیت زیادہ تر جلسے جلوس تک محدود ہے۔
  • امدادی کاموں میں ان کا کردار محدود اور سست ہے۔

یہ وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے رویے بدلیں اور اپنی تنظیمی صلاحیت کو عوامی خدمت کے لیے استعمال کریں۔

حل کی راہیں اور عملی اقدامات

اگر سیاسی لیڈر واقعی عوام کا اعتماد بحال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ اقدامات کرنے ہوں گے:

  1. رضاکار ٹیمیں بنانا
    ہر جماعت کو اپنی مقامی سطح پر رضا کاروں کی ٹیمیں بنانی چاہئیں جو آفات کے وقت فوراً حرکت میں آئیں۔
  2. خود عملی شرکت
    بڑے لیڈران کو صرف میڈیا پر بیانات دینے کے بجائے خود متاثرہ علاقوں میں جا کر عوام کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
  3. ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت
    وعدوں کے بجائے حقیقی ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جو عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچائیں۔
  4. پختون خطے پر خاص توجہ
    پختون عوام کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے علاقوں میں تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبے شروع کیے جائیں۔

عوام کی بیداری اور تبدیلی

اب عوام بھی بدل رہے ہیں۔ وہ صرف وعدوں اور بیانات پر یقین نہیں کرتے بلکہ عملی خدمت دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل سیاسی رہنماؤں سے سوال کرتی ہے کہ “کبھی آپ نے ہمارے ساتھ بیلچہ اٹھایا ہے؟”۔

یہ سوال بظاہر چھوٹا لگتا ہے مگر حقیقت میں یہ پورے سیاسی نظام پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔

نتیجہ

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاستدانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ چکے ہیں، اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے محض بیانات کافی نہیں۔ پختون عوام جو سب سے زیادہ مشکلات اور قربانیوں کا سامنا کر چکے ہیں، وہ حقیقی خدمت کے منتظر ہیں۔

بیلچہ اٹھا کر عوام کے ساتھ کھڑے ہونا اب محض ایک استعارہ نہیں رہا بلکہ ایک عملی مطالبہ بن چکا ہے۔ اگر سیاسی قیادت نے اس مطالبے کو نظر انداز کیا تو یہ خلیج مزید گہری ہو گی، اور عوام کا اعتماد ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔

Leave a Comment