Advertisement

پاکستانی کھلاڑیوں کے این او سی روکنے پر کرکٹ آسٹریلیا پریشان، بی بی ایل 15 غیر یقینی صورتحال کا شکار

لاہور (خصوصی رپورٹ) – پاکستانی کرکٹرز کی غیر ملکی لیگز میں شرکت ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گئی ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اپنی این او سی (No Objection Certificate) پالیسی میں بڑی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔ اس فیصلے نے نہ صرف کھلاڑیوں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے بلکہ کرکٹ آسٹریلیا کے لیے بھی تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ بگ بیش لیگ (BBL) کے 15ویں ایڈیشن کے قریب آنے کے ساتھ ہی آسٹریلوی حکام نے پی سی بی سے براہِ راست رابطہ کیا ہے تاکہ صورتحال کو واضح کیا جا سکے۔

Advertisement

پی سی بی کی نئی این او سی پالیسی

ذرائع کے مطابق پی سی بی نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کھلاڑیوں کو غیر ملکی لیگز میں کھیلنے کے لیے این او سی صرف ان کی کارکردگی کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ ہر کھلاڑی کو پہلے اپنی فارم، فٹنس اور قومی ٹیم کے لیے اہمیت ثابت کرنا ہوگی، اس کے بعد ہی اسے بیرونِ ملک کھیلنے کی اجازت ملے گی۔

مزید یہ کہ بی بی ایل سمیت آئندہ کے تمام ٹورنامنٹس کے لیے پہلے سے جاری کیے گئے این او سی بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یہ اچانک اقدام ان فرنچائزز کے لیے بھی مشکل پیدا کر رہا ہے جنہوں نے پہلے ہی پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ معاہدے کیے تھے۔

Also read :ویمنز ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم اپنی مہم کا آغاز

کرکٹ آسٹریلیا کی پریشانی اور ردعمل

کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو ٹوڈ گرین برگ نے ایک بیان میں کہا:
“ہم گزشتہ چند دنوں سے پی سی بی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور مثبت پیش رفت کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم پاکستانی کھلاڑیوں کو بی بی ایل میں دیکھنے کے منتظر ہیں کیونکہ وہ لیگ کو نئی قدر بخشیں گے۔”

ان کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ صورتحال کو سفارتی اور محتاط انداز میں حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ وہ براہِ راست تنقید سے گریز کر رہے ہیں لیکن بی بی ایل فرنچائزز کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔

بڑے کھلاڑیوں کی غیر موجودگی کا خدشہ

بی بی ایل 15 میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت شائقین اور فرنچائزز کے لیے ایک بڑی کشش تھی۔ شاہین شاہ آفریدی، بابر اعظم، محمد رضوان، حارث رؤف اور شاداب خان جیسے کھلاڑی آسٹریلوی لیگ میں خاص توجہ کا مرکز سمجھے جا رہے تھے۔ برسبین ہیٹ اور میلبورن اسٹارز تو اپنے میدانوں میں شاہین آفریدی اور حارث رؤف کے اعزاز میں خصوصی سیکشنز بھی مختص کر چکے ہیں۔

اگر یہ کھلاڑی دستیاب نہ ہوئے تو لیگ کی مارکیٹنگ، اسپانسرشپ اور شائقین کی دلچسپی پر براہِ راست اثر پڑ سکتا ہے۔

تنقید اور حمایت

پی سی بی کی اس نئی پالیسی کو کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ دنیا کی بڑی لیگز میں کھیلنے سے کھلاڑیوں کو نہ صرف تجربہ ملتا ہے بلکہ مالی فائدہ بھی ہوتا ہے، جو بالآخر پاکستان کرکٹ کے لیے ہی مثبت ثابت ہوتا ہے۔

دوسری جانب پی سی بی کا مؤقف ہے کہ کھلاڑیوں کی پہلی ترجیح قومی ٹیم ہونی چاہیے اور اگر وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں نہیں نبھا رہے تو انہیں غیر ملکی لیگز میں کھیلنے کی اجازت دینا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

مستقبل کے امکانات

اگرچہ صورتحال پیچیدہ ہے لیکن کرکٹ آسٹریلیا کو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔ ماضی میں بھی بی بی ایل کو غیر ملکی کھلاڑیوں کی دستیابی کے حوالے سے مشکلات پیش آتی رہی ہیں، لیکن ہر بار کسی نہ کسی سطح پر حل نکلتا رہا ہے۔

اس بار بھی توقع کی جا رہی ہے کہ دسمبر میں شروع ہونے والے ایڈیشن سے پہلے کوئی معاہدہ طے پا جائے گا اور پاکستانی کھلاڑی ایک بار پھر آسٹریلوی میدانوں میں اپنی کارکردگی دکھا سکیں گے۔

فرنچائزز اور شائقین کی نظریں پی سی بی پر

فی الحال ساری نگاہیں پاکستان کرکٹ بورڈ پر ہیں۔ فرنچائزز، اسپانسرز اور شائقین سبھی آنے والے ہفتوں میں حتمی وضاحت کے منتظر ہیں۔ بی بی ایل 15 کے لیے ڈرافٹ اور اسکواڈز تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، لیکن اگر پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت یقینی نہ ہوئی تو یہ لیگ کے معیار اور شائقین کی دلچسپی دونوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔


ڈسکلیمر: اس خبر میں دی گئی معلومات دستیاب رپورٹس اور مستند ذرائع پر مبنی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ تازہ ترین اپ ڈیٹس کے لیے سرکاری خبروں کے ذرائع سے تصدیق ضرور کریں۔

Leave a Comment