کراچی — پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک اور المناک واقعہ پیش آیا ہے جس نے شہریوں کے دل دہلا دیے ہیں۔ لانڈھی کے علاقے میں سات سالہ بچے کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دو مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جنہیں عدالت میں پیش کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس واقعے نے ایک مرتبہ پھر بچوں کے تحفظ، قانون کی عملداری اور معاشرتی ذمہ داری پر بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
واقعے کی تفصیلات
ابتدائی معلومات کے مطابق بچہ چند روز قبل لاپتہ ہوا تھا۔ اہل خانہ نے علاقے کے تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی اور اپنی مدد آپ کے تحت تلاش شروع کی۔ تاہم، تلاش کے دوران اطلاع ملی کہ ایک لاش ملی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ لانڈھی کے ایک گنجان آباد محلے میں پیش آیا، جہاں ملزمان نے بچے کو ورغلا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اہل علاقہ کے مطابق اس طرح کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن بروقت سخت کارروائی نہ ہونے کے باعث مجرم جری ہو گئے ہیں۔
پولیس کی کارروائی اور گرفتاریاں
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی خبر ملتے ہی مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ قریبی علاقوں میں سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئیں اور مقامی مخبروں کی مدد سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ شواہد اور گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر دو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی تفتیش میں ملزمان نے جرم کا اعتراف کیا ہے، تاہم مزید تفتیش جاری ہے۔
ایس ایس پی ملیر نے میڈیا کو بتایا کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں، اور ان کے موبائل فون ڈیٹا سمیت ڈی این اے نمونے فرانزک لیبارٹری کو بھیج دیے گئے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تمام تر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
عوامی ردعمل
اس اندوہناک واقعے کے بعد علاقے کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مقامی رہائشیوں نے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسے گھناونے جرم کے بارے میں سوچ نہ سکے۔
سوشل میڈیا پر بھی یہ واقعہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ہزاروں صارفین نے اپنے پیغامات میں متاثرہ بچے کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
ماہرین کی آراء
ماہرینِ قانون اور سماجی کارکنوں نے کہا ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور صرف گرفتاریاں مسئلے کا حل نہیں۔ اس کے لیے جامع پالیسی، سخت قوانین پر عمل درآمد اور تعلیمی و سماجی سطح پر آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔
معروف سماجی کارکن نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسز میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ متاثرہ خاندان کو انصاف کے حصول میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں سے زیادتی اور قتل کے کیسز کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو جلد از جلد فیصلے سنائیں۔
حکومت اور اداروں کی ذمہ داری
بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ چائلڈ پروٹیکشن یونٹس اکثر غیر فعال رہتے ہیں، اور پولیس کے پاس اس قسم کے جرائم کی روک تھام کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی حکومت سے بار بار مطالبہ کر چکے ہیں کہ اسکولوں اور محلوں کی سطح پر آگاہی پروگرام شروع کیے جائیں، بچوں کو سکھایا جائے کہ اجنبی افراد سے کس طرح بچاؤ کیا جائے، اور والدین کو بھی اس حوالے سے تربیت دی جائے۔
متاثرہ خاندان کی حالت
بچے کے والدین صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا معصوم اور کھیلنے کودنے والا بچہ تھا، جسے ظالموں نے چھین لیا۔ خاندان کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کے منتظر ہیں اور چاہتے ہیں کہ مجرموں کو ایسی سزا دی جائے جو دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنے۔
نتیجہ
کراچی لانڈھی کا یہ واقعہ معاشرے کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ یہ صرف ایک خاندان کا سانحہ نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بچوں کا تحفظ صرف حکومت یا پولیس کی ذمہ داری نہیں، بلکہ والدین، اساتذہ اور ہر شہری کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ جب تک اجتماعی سطح پر سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جائیں گے، ایسے دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔