Advertisement

ماں، بیٹا اور وہ راز: جب پردہ چاک ہوا

پاکستانی معاشرہ جہاں روایتی اقدار اور خاندانی نظام کو بڑی اہمیت حاصل ہے، وہاں بعض اوقات ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جو اس نظام کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں منظرِ عام پر آیا جس نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا۔ لاہور کے نواحی علاقے میں ایک 24 سالہ نوجوان نے اپنی ماں کو ایک ایسے راز میں ملوث پایا، جس کا تصور بھی اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ ایک بیٹے نے اپنی ماں کو پڑوسی کے ساتھ مشتبہ حالات میں دیکھا، اور اس کے بعد جو ہوا، وہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

Advertisement

یہ کہانی ایک درمیانے طبقے کے گھرانے کی ہے۔ والد کا انتقال کئی برس پہلے ہو چکا تھا، ماں نے تن تنہا بیٹے کی پرورش کی، اسے اعلیٰ تعلیم دلوائی، اور خود ایک اسکول میں ملازمت کرکے گھر کی گاڑی کھینچتی رہی۔ بظاہر سب کچھ نارمل لگتا تھا، لیکن اندرونی طور پر کچھ اور ہی چل رہا تھا۔

محلے میں ایک پڑوسی، جو کہ پینتالیس کے پیٹے میں تھا، آئے روز اس خاتون کے گھر آتا جاتا تھا۔ محلے میں چہ مگوئیاں تھیں، لیکن کسی نے کھل کر کچھ کہنے کی جرات نہ کی۔ بیٹا جو کہ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، شروع میں سب کچھ معمول سمجھتا رہا، مگر وقت کے ساتھ اسے کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا۔

بیٹے کو شک ہونے لگا

24 سالہ بیٹے نے محسوس کیا کہ جب وہ گھر پر نہ ہو، تبھی پڑوسی زیادہ تر آتا ہے۔ ایک دن وہ بغیر اطلاع دیے جلدی گھر آ گیا، اور جو کچھ اس نے دیکھا، اس نے اس کی دنیا ہی بدل دی۔ ماں اور پڑوسی گھر میں اکیلے تھے، اور ان کی حرکات ایسی تھیں جو کسی عام مہمان کی نہیں ہو سکتیں۔

بیٹے کا دل دہل گیا۔ ماں، جسے وہ عزت و وقار کی علامت سمجھتا تھا، اس کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ اس نے فوراً دروازہ بند کر دیا اور کسی قسم کی لڑائی جھگڑے سے گریز کیا۔ مگر اس کے ذہن میں طوفان اٹھ چکا تھا۔

ماں کا ردعمل

جب ماں کو اندازہ ہوا کہ بیٹا کچھ جان چکا ہے، تو اس نے اس سے کھل کر بات کرنے کی کوشش کی۔ ماں نے اعتراف کیا کہ وہ پڑوسی کے ساتھ “جذباتی طور پر جڑی ہوئی” ہے اور اسے ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ اس نے کہا کہ سالوں سے وہ تنہا زندگی گزار رہی ہے، اور معاشرے کے خوف سے کبھی کسی سے کچھ نہ کہا۔

ماں کے لیے یہ تعلق شاید جذباتی سہارا تھا، لیکن بیٹے کے لیے یہ سب عزت، شرم اور تربیت کے برعکس تھا۔ ماں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی، کہا کہ وہ چاہے تو اس رشتے کو ختم کر دے گی، مگر یہ اس کے لیے بھی تکلیف دہ ہو گا۔

Also read : فٹ بال کی دنیا میں ہلچل مچانے والی پاکستانی نژاد برطانوی فٹبالرز: ’مجھے اپنی شناخت پر فخر ہے‘

بیٹے کا فیصلہ

چند دن خاموشی کے بعد بیٹے نے ماں سے کھل کر بات کی۔ اس نے کہا کہ وہ اسے قصوروار نہیں ٹھہراتا، لیکن چاہتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں سمجھداری سے کام لے۔ اس نے ماں کو مشورہ دیا کہ اگر واقعی وہ اس مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے، تو باقاعدہ نکاح کر لے، تاکہ معاشرہ بھی سوال نہ اٹھائے اور وہ خود بھی اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔

یہ ایک بالغ اور سمجھدار فیصلہ تھا۔ اس نے ماں کی عزت بھی بچائی اور اپنے جذبات کو بھی سنبھالا۔

سماجی تنقید اور حقیقت

یہ واقعہ نہ صرف انفرادی سطح پر ایک خاندان کی کہانی ہے بلکہ معاشرے کی ایک گہری خامی کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیوہ عورت کے لیے دوبارہ شادی کرنا ایک “بدنامی” تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی خاتون اپنی زندگی میں ساتھی کی خواہش ظاہر کرے تو اسے بدچلن یا خود غرض کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جذبات اور ضروریات انسان کی فطرت کا حصہ ہیں، اور انہیں دبانا یا چھپانا معاشرتی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

خاتون کا حتمی فیصلہ

بیٹے کے مشورے کے بعد خاتون نے خود سے سوال کیا: کیا وہ صرف وقتی سہارا چاہتی ہے یا زندگی بھر کے لیے ایک ساتھی؟ اس نے پڑوسی سے کھل کر بات کی، اور اس سے شادی کی بات کی۔ پڑوسی، جو ابتدا میں سنجیدہ نہ تھا، اس معاملے کی سنگینی کو سمجھا اور پیچھے ہٹ گیا۔ خاتون نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی عزت اور بیٹے کی تربیت پر کوئی داغ نہیں لگنے دے گی۔

اس نے خود کو بہتر بنانے اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ بیٹے نے بھی ماں کو سپورٹ کیا، اور دونوں نے اپنی زندگی کو نئے سرے سے جینے کا آغاز کیا۔

نتیجہ: عبرت بھی، سبق بھی

یہ کہانی ایک لمحاتی کمزوری، سماجی دباؤ، اور ذاتی جذبات کے درمیان الجھی ہوئی زندگی کی آئینہ دار ہے۔ یہ واقعہ معاشرے کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم عورت کو اس کا حق دے رہے ہیں؟ کیا ہم صرف مرد کو ہی جذبات اور آزادی کا حق دیتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم رشتوں کی اصل روح کو سمجھتے ہیں یا صرف ظاہری پردوں میں الجھے رہتے ہیں؟

بیٹے کی بالغ نظری، ماں کی خود احتسابی، اور دونوں کی باہمی سمجھداری اس کہانی کا وہ پہلو ہے جو ہر گھر، ہر خاندان کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔

Leave a Comment