دنیا ایک بار پھر دہشت اور خونریزی کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک مسجد پر ہونے والے ڈرون حملے میں 70 سے زائد شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد زخمی حالت میں مقامی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب مسجد میں نمازیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جس کے نتیجے میں جانی نقصان ناقابلِ تصور حد تک بڑھ گیا۔ اس سانحے نے نہ صرف مقامی آبادی کو غم و غصے میں مبتلا کردیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
حملے کی تفصیل
عینی شاہدین کے مطابق ڈرون اچانک فضا میں نمودار ہوا اور چند ہی لمحوں بعد مسجد کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی، جبکہ مسجد کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ امدادی کارروائیوں میں مصروف افراد کا کہنا ہے کہ کئی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی تھیں جنہیں نکالنے میں گھنٹوں لگے۔ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
شہریوں کا ردعمل
مقامی آبادی نے اس حملے کو وحشیانہ اقدام قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے۔ متاثرہ خاندانوں میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگ نہ صرف اپنے پیاروں کو کھو دینے پر سوگوار ہیں بلکہ خوف و ہراس کا بھی شکار ہیں۔ ایک مقامی شخص نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“ہماری عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ جو لوگ نماز پڑھنے آئے تھے، وہ لاشوں میں تبدیل ہوگئے۔ یہ ہماری تاریخ کے سیاہ ترین لمحات میں سے ایک ہے۔”
انسانی المیہ
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں زیادہ تر نقصان عام شہریوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ مسجد جیسے مقدس مقام پر حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
حکومت اور حکام کا موقف
حکومت نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ اولین ذمہ داری ہے اور اس قسم کے واقعات ناقابلِ برداشت ہیں۔ حکام نے زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے اور متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت کا اعلان کیا ہے۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور خون کے عطیات دینے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
عالمی سطح پر بھی اس حملے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مختلف ممالک کے رہنماؤں اور تنظیموں نے کہا ہے کہ عبادت گاہوں پر حملے کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بھی فوری اور شفاف تحقیقات پر زور دیا ہے تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کہا ہے کہ اگر اس طرح کے حملوں کو روکا نہ گیا تو یہ سلسلہ مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہوں گے۔
مذہبی و سماجی پہلو
مسجد کو نشانہ بنانا نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ مذہبی جذبات کو بھی شدید ٹھیس پہنچاتا ہے۔ مسلمان برادری نے اسے اپنے عقیدے پر حملہ قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی عوامی ردعمل بہت شدید دیکھنے میں آ رہا ہے جہاں لوگ انصاف اور جوابدہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Also read :ایشیاء کپ میں پاک بھارت ٹاکرا: سپر فور مرحلے کا شیڈول جاری
ماہرین کی رائے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے بظاہر عسکری مقاصد کے لیے کیے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا سب سے زیادہ نقصان بے گناہ شہریوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق جب تک عالمی سطح پر ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے سخت قوانین نہیں بنائے جاتے، ایسے سانحات کا خطرہ برقرار رہے گا۔
مستقبل کے خدشات
اس واقعے کے بعد علاقے میں خوف کی فضا مزید بڑھ گئی ہے۔ لوگ اپنی عبادت گاہوں، بازاروں اور تعلیمی اداروں میں بھی غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ایسے حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ شدت پسندی کو مزید بڑھا سکتا ہے اور علاقائی استحکام کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
نتیجہ
مسجد پر ڈرون حملے کے نتیجے میں 70 سے زائد شہریوں کی ہلاکت ایک ایسا سانحہ ہے جس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا بلکہ عالمی سطح پر اس نے سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ آیا جدید جنگی ٹیکنالوجی کا استعمال کس حد تک اخلاقی اور قانونی ہے۔ عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں عبادت گاہوں اور عام شہریوں کو اس طرح کے ہولناک حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔