ایشیا کپ 2025 کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیانی میچ کے بعد اُٹھنے والے “ہینڈ شیک” تنازع کے پسِ پردہ معاملے میں بڑا موڑ آگیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی شدید تنقید، مطالبہِ تبدیلی اور خدشات کے بعد عالمی کرکٹ کی گورننگ باڈی نے فیصلہ کرتے ہوئے میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو پاکستان کے باقی میچز کی نگرانی سے ہٹا دیا ہے۔ اس فیصلے سے اس تنازع کا بظاہر حل ہو چکا ہے، مگر اس پورے واقعے نے کرکٹ اور اخلاقیات کے سنگِ میل پر کئی سوالات چھوڑ دیے ہیں۔
پسِ منظر
- ایشیا کپ کے پاک-بھارت میچ میں ٹاس کے موقع پر کپتان سلمان علی آغا نے روایتی مصافحہ (ہینڈ شیک) کرنے کی کوشش کی، مگر میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ نے کہا کہ ٹاس سے پہلے ہاتھ ملائے جانے کا اہتمام نہیں ہوگا۔
- بعد ازاں ایک احتجاجی ردعمل کے طور پر پی سی بی نے آئی سی سی سے درخواست کی کہ اینڈی پائی کرافٹ کو تبدیل یا ہٹایا جائے۔
- اس معاملے پر پی سی بی نے واضح کیا کہ اگر مطالبہ پورا نہ ہوا تو پاکستان باقی میچز نہیں کھیلے گا۔
تنازع کی نوعیت
یہ واقعہ صرف کھیل کے اصولوں کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ اس میں کرکٹ کی اقدار، کھلاڑیوں کے حقوق، بین الاقوامی ضوابط، اور نظم و ضبط کے تقاضے شامل تھے
- کھیل کی روح اور ضابطہ اخلاق: ہاتھ ملانے کی روایت کرکٹ کی شرافت اور خیر سگالی کا حصہ مانی جاتی ہے۔ اس کو نہ کرنا یا روکنا کچھ حلقوں میں رویے کی بدعنوانی سمجھا گیا۔
- ذمہ داری اور توازنِ اختیارات: میچ ریفری کا کام منصفانہ پن، غیر جانبداری اور تمام فریقین کے بیچ برابری کے اصول کا احترام کرنا ہے۔ پی سی بی کا مؤقف تھا کہ اینڈی پائی کرافٹ نے بھارت کے ساتھ مل کر کام کیا، یا کم از کم ان کی شکایات نے یہ تاثر دیا کہ غیر جانبداری متاثر ہوئی ہے۔
- اثر و رسوخ اور بروقت ردعمل: تنازع کے ابھرنے پر پاکستان کی بیوروکریسی اور کرکٹ انتظامیہ نے موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں تک لے جایا جائے تاکہ مناسب ردِ عمل ہو سکے۔
آئی سی سی کا ردعمل اور حتمی فیصلہ
- آئی سی سی نے ابتدا میں پاکستان کے مطالبے کو مسترد کرنے کی رپورٹس دیں، خصوصاً بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ایران سے آئی سی سی نے پی سی بی کی درخواست قبول نہیں کی۔
- تاہم، بعدازاں ذرائع سے معلوم ہوا کہ معاملہ طے پا گیا ہے: اینڈی پائی کرافٹ کو پاکستان کے باقی میچز کی میچ ریفری کی ذمہ داری سے ہٹا دیا گیا ہے۔
- پاکستان اور متحدہ عرب امارات کا میچ جو شیڈول پر تھا، وہ اب بلا رکاوٹ کھیلا جائے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا موقف
- پی سی بی نے بارہا موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ نہ صرف رسمی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی وقار کا سوال ہے۔
- چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے بھی اعلیٰ حکومتی سطح پر مشاورت کی، اور یہ واضح کیا کہ اگر مطالبہ نہ مانا گیا تو پاکستان مزید میچز نہ کھیلنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
- پاکستان کی ٹیم نے پریس کانفرنس منسوخ کی، تاہم ٹریننگ معمول کے مطابق جاری رہی، یہ اشارہ کہ ٹیم انتظامیہ نے ممکنہ بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی تھی۔
Also read :پی سی بی کا آئی سی سی کو خط: بھارت کی “کہپائی کرافٹ” تبدیل نہ کرنے پر واک آؤٹ؟
تنازع کے اثرات اور تجزیہ
یہ واقعہ چند بڑے پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے:
- انٹرنیشنل کرکٹ میں اختیارات اور شفافیت
یہ معاملہ ثابت کرتا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ تنظیمات کو یہ یقین دہانی کرانی چاہیے کہ ریفریز اور قوانین عادل اور غیر جانبدار ہوں۔ شواہد یا تاثر کسی بھی ڈسپلنری معاملہ پیدا کرسکتا ہے، خاص طور پر جب ایک ملک محسوس کرے کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ - کھیل اور سیاست کا ملاپ
پاکستان اور بھارت کے مابین کھیل اکثر سیاسی حسّاسیت کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے مواقع پر امیج، عزت اور نظریاتی تشہیر بھی ملوث ہوتے ہیں، اور یہی چیز موقف کو مزید سخت بنا دیتی ہے۔ - میڈیا اور عوامی دباؤ کا کردار
میڈیا رپورٹس اور عوامی ردعمل نے اس معاملے میں دباؤ بنایا، جس نے پی سی بی کو موقف اختیار کرنے اور آئی سی سی پر دباؤ ڈالنے میں مدد دی۔ - امکانات اور آئندہ خطرات
ایسے معاملات مستقبل میں بھی ہو سکتے ہیں، اور ہر ٹیم یا بورڈ کو چاہیے کہ وہ اپنے ضوابط، اخلاقی حدود، اور ثالثی ذرائع واضح طور پر جانتے ہوں۔ سابقہ تجربے بتاتے ہیں کہ اگر تنازعات کو شفاف نہ نمٹایا جائے تو وہ کھیل کے روح کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
نتیجہ
ایشیا کپ کا یہ تنازع کافی جذباتی اور حساس معاملہ تھا، جس نے بہت جلد ملکی مفاد، قومی وقار اور بین الاقوامی روابط کو پارا پارا کر دیا۔ اینڈی پائی کرافٹ کو پاکستان کے باقی میچز سے ہٹانے کا فیصلہ، پی سی بی کے مطالبے کی تسلیم کی صورت ہے، اور شاید یہ اعتماد بحال کرنے کی کوشش کہ بین الاقوامی کرکٹ میں ہر ملک کو برابر کی عزّت ملے۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کھیل صرف مجموعی نمبرات اور کارکردگی کا معاملہ نہیں، بلکہ عزت، اصول، اور ضابطہ اخلاق بھی اس کا حصہ ہیں۔ کھیل کو وہ مقام ملے جہاں نہ صرف گیند اور وکٹ کی قدر ہو، بلکہ کھیل کا جذبہ، اخلاقیات اور بین الاقوامی احترام بھی برابر ہوں۔