Advertisement

سموسے لاکر کیوں نہیں دیے؟ بیوی اور اس کے گھر والوں نے شوہر کی پٹائی کردی

پاکستانی معاشرے میں گھریلو جھگڑے عام بات ہیں، لیکن بعض اوقات یہ جھگڑے معمولی باتوں سے شروع ہو کر سنگین صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دلچسپ مگر افسوسناک واقعہ حال ہی میں سامنے آیا، جہاں ایک شوہر کو صرف اس وجہ سے شدید تشدد کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اپنی بیوی کے کہنے پر سموسے لاکر نہ دے سکا۔ اس واقعے نے سوشل میڈیا پر بھی خاصی توجہ حاصل کی اور عوامی ردِعمل نے اسے مزید نمایاں کر دیا۔

Advertisement

واقعے کی تفصیل

یہ واقعہ ایک مقامی محلے میں پیش آیا جہاں شوہر اپنی بیوی کے مطالبے پر سموسے لانے میں ناکام رہا۔ بیوی نے پہلے شوہر سے جھگڑا کیا، اور بعد ازاں اپنے گھر والوں کو بھی بلایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شوہر کو نہ صرف بیوی کی ڈانٹ سہنی پڑی بلکہ بیوی کے گھر والوں کے ہاتھوں بھی مار کھانی پڑی۔

گواہوں کے مطابق جھگڑا ابتدا میں زبانی تلخی تک محدود تھا لیکن جلد ہی مارپیٹ میں تبدیل ہو گیا۔ شور شرابہ سن کر محلے کے لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے اور معاملے کو ختم کرانے کی کوشش کی۔

محلے داروں کی رائے

محلے داروں نے اس واقعے پر ملا جلا ردعمل دیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ معمولی بات پر تشدد کرنا قطعاً درست نہیں، جبکہ کچھ نے ہنسی مذاق میں کہا کہ “سموسے کے لیے یہ سب کچھ ہونا شاید نئی بات نہیں، کیونکہ پاکستانیوں کو کھانے پینے سے محبت ہے۔”

تاہم زیادہ تر افراد کا مؤقف تھا کہ گھریلو تنازعات کو اس سطح پر لے جانا افسوسناک ہے اور یہ رویہ ہمارے معاشرتی عدم برداشت کو ظاہر کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہنگامہ

جیسے ہی یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، صارفین نے دلچسپ تبصرے شروع کر دیے۔

  • کچھ لوگوں نے شوہر کے حق میں ہمدردی کا اظہار کیا۔
  • کچھ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ “آئندہ شوہروں کو چاہیے کہ سموسے ہمیشہ فریزر میں رکھے ہوں تاکہ مسئلہ نہ بڑھے۔”
  • کئی صارفین نے بیوی اور اس کے گھر والوں کے رویے کو ظالمانہ قرار دیا اور کہا کہ معمولی بات پر ہاتھ اٹھانا کسی صورت درست نہیں۔

Also read :پاکستان کا فیصلہ کن معرکہ آج یو اے ای سے، فائنل کا ٹکٹ داؤ پر

ماہرینِ نفسیات کی رائے

ماہرین کے مطابق یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور غصے پر قابو نہ پانے کی عادت کی نشاندہی کرتا ہے۔ گھریلو مسائل اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر شروع ہوتے ہیں لیکن اگر دونوں فریق تحمل کا مظاہرہ نہ کریں تو بات تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔

ایک ماہرِ نفسیات نے کہا:
“اگر میاں بیوی چھوٹی چھوٹی خواہشات یا اختلافات پر ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے لڑائی کریں تو یہ رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات شادی شدہ زندگی کے لیے خطرناک ہیں۔”

گھریلو تشدد کا پہلو

یہ واقعہ اس بات کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ گھریلو تشدد صرف مردوں کی طرف سے خواتین پر ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات مرد بھی اس کا شکار بنتے ہیں۔ پاکستان میں مرد حضرات عموماً اپنی مظلومیت بیان نہیں کرتے کیونکہ معاشرتی دباؤ اور مذاق کا ڈر انہیں روک دیتا ہے۔ تاہم ایسے واقعات یہ حقیقت کھول کر سامنے لے آتے ہیں کہ گھریلو تشدد ایک دو طرفہ مسئلہ ہے۔

قانونی پہلو

قانونی ماہرین کے مطابق اس طرح کے جھگڑوں میں اگر متاثرہ شخص چاہے تو مقدمہ درج کرا سکتا ہے، کیونکہ پاکستان کے قوانین گھریلو تشدد کی ہر شکل کو جرم تصور کرتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگ بدنامی یا خاندان کو بچانے کے لیے قانونی راستہ اختیار نہیں کرتے۔

کھانے پینے کے ساتھ پاکستانیوں کا تعلق

یہ واقعہ ایک اور حقیقت کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کھانے پینے کی اشیاء کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ سموسہ، پکوڑا، چٹنی یا بریانی جیسے کھانے صرف خوراک نہیں بلکہ جذباتی تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سموسے جیسی معمولی چیز پر بھی بڑے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔

عوامی رائے

اس واقعے کے بعد عوام میں کئی دلچسپ آراء سامنے آئیں:

  • کچھ لوگوں نے کہا کہ بیوی کا رویہ ناقابلِ قبول ہے اور اسے شوہر سے معافی مانگنی چاہیے۔
  • کچھ نے مذاق میں کہا کہ “اب شوہروں کو اپنی جیب میں سموسے رکھنے چاہئیں تاکہ ایسے مسائل نہ ہوں۔”
  • کچھ سنجیدہ آراء کے مطابق یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کو باہمی برداشت اور سمجھوتے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کی کوریج

مقامی میڈیا نے اس واقعے کو ایک مزاحیہ مگر سبق آموز کہانی کے طور پر پیش کیا۔ کئی چینلز نے اس پر پروگرامز میں تبصرے بھی کیے اور اسے پاکستانی گھروں میں پائی جانے والی چھوٹی چھوٹی تنازعاتی فضا کی عکاسی قرار دیا۔

نتیجہ

یہ واقعہ محض ایک معمولی جھگڑا نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ عدم برداشت اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے کا اظہار گھریلو زندگی کو کس طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی خواہشات اور مشکلات کو سمجھیں، اور اگر کوئی معاملہ بگڑ جائے تو اسے بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، چاہے وہ سموسے لانے پر جھگڑا ہو یا کسی بڑے معاملے پر۔

Leave a Comment