Advertisement

برکینا فاسو میں ہم جنس پرستی کے خلاف سخت قانون: قید اور بھاری جرمانے کی سزا نافذ

افریقی ملک برکینا فاسو حالیہ دنوں عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہ قانون ہے جو حکومت نے ہم جنس پرستی کے خلاف نافذ کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق، ملک میں ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو اب قید اور بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس اعلان کے بعد برکینا فاسو کے اندر اور باہر دونوں جگہ مختلف حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔ ایک طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اس اقدام کو آزادی پر قدغن قرار دے رہی ہیں، تو دوسری جانب ملک کے قدامت پسند اور مذہبی حلقے اس فیصلے کو معاشرتی اقدار کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔

Advertisement

برکینا فاسو کا پس منظر

برکینا فاسو مغربی افریقہ کا ایک چھوٹا مگر اہم ملک ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ ملک سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں کا شکار رہا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اس نے دنیا بھر میں اپنی سخت گیر پالیسیوں اور معاشرتی رویوں کی وجہ سے بھی توجہ حاصل کی ہے۔ افریقہ کے بیشتر ممالک میں ہم جنس پرستی کو غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے، لیکن برکینا فاسو نے اب باقاعدہ طور پر اسے جرم قرار دے کر اس پر سخت سزاؤں کا قانون نافذ کر دیا ہے۔

نئے قانون کی تفصیلات

اس قانون کے مطابق:

  • ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
  • اس کے ساتھ ساتھ بھاری جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔
  • قانون کا اطلاق مرد و خواتین دونوں پر ہوگا۔
  • عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جرم کی نوعیت اور شدت کے مطابق سزا کا تعین کرے۔

یہ اقدام افریقی معاشروں کے اس عمومی رویے کی عکاسی کرتا ہے جس میں مغربی دنیا کے برعکس ہم جنس پرستی کو نہ صرف ناپسند کیا جاتا ہے بلکہ اس کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔

حکومت کا مؤقف

برکینا فاسو کی حکومت نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لیے ضروری تھا۔ حکومتی ترجمان کے مطابق، ملک کے عوام کی اکثریت ہم جنس پرستی کو اپنے مذہب، ثقافت اور روایات کے منافی سمجھتی ہے۔ لہٰذا ریاست پر لازم تھا کہ وہ عوامی خواہشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرے۔

عوامی ردعمل

اس قانون پر عوامی رائے منقسم ہے:

  • ایک بڑی تعداد نے اس قانون کو خوش آمدید کہا اور اسے ’’ملک کی اسلامی و روایتی اقدار کا تحفظ‘‘ قرار دیا۔
  • قدامت پسند مذہبی رہنماؤں نے کہا کہ ہم جنس پرستی معاشرتی بگاڑ اور خاندانی نظام کو تباہ کرتی ہے، لہٰذا اس پر سختی ضروری ہے۔
  • تاہم، کچھ شہریوں اور نوجوانوں نے اس پر سوال اٹھایا کہ کیا ریاست کو افراد کی ذاتی زندگیوں میں اس حد تک مداخلت کرنی چاہیے؟

عالمی ردعمل

بین الاقوامی سطح پر اس قانون نے شدید بحث کو جنم دیا ہے۔

  • انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ انسانی آزادیوں کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
  • مغربی ممالک خصوصاً یورپ اور امریکا نے بھی اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ برکینا فاسو اپنے قانون پر نظرثانی کرے۔
  • دوسری جانب کچھ افریقی اور ایشیائی ممالک نے برکینا فاسو کے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ ہر ملک کو اپنی ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔

افریقہ میں ہم جنس پرستی کے قوانین

افریقہ کے بیشتر ممالک میں ہم جنس پرستی کو غیر قانونی اور ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر:

  • نائجیریا اور یوگنڈا میں ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو سخت قید اور بعض صورتوں میں سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔
  • جنوبی افریقہ ان چند افریقی ممالک میں شامل ہے جہاں ہم جنس پرستی قانونی طور پر جائز ہے اور وہاں مساوی حقوق دیے جاتے ہیں۔

برکینا فاسو کا یہ نیا قانون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ افریقی ممالک اپنی معاشرتی اقدار کے تحفظ میں کس حد تک سخت گیر موقف اختیار کرنے کو تیار ہیں۔

انسانی حقوق بمقابلہ معاشرتی اقدار

یہ معاملہ بنیادی طور پر انسانی حقوق اور معاشرتی اقدار کے درمیان تصادم کی عکاسی کرتا ہے۔

  • انسانی حقوق کے علمبردار کہتے ہیں کہ ہر فرد کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ہے، چاہے اس کی جنسی ترجیحات کچھ بھی ہوں۔
  • قدامت پسند معاشرے اس کے برعکس سمجھتے ہیں کہ ایسے رویے معاشرتی ڈھانچے، خاندان اور اخلاقیات کے لیے خطرہ ہیں، لہٰذا ان پر قابو پانا ضروری ہے۔

معیشت اور تعلقات پر اثرات

برکینا فاسو کے اس فیصلے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مغربی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ بعض بین الاقوامی ادارے اور ڈونرز انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر امداد روک سکتے ہیں یا کم کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، قدامت پسند اور مذہبی ممالک کے ساتھ برکینا فاسو کے تعلقات مضبوط ہو سکتے ہیں۔

Also read :راولپنڈی میں اکیڈمی پرنسپل کی درندگی: شادی کا جھانسہ دے کر طالبہ سے زیادتی، دو بار اسقاط حمل کرایا

ماہرین کی آراء

  • سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ قدم عوامی حمایت حاصل کرنے اور اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے اٹھایا ہے، کیونکہ ملک میں سیاسی بے چینی اور داخلی مسائل بڑھ رہے ہیں۔
  • سماجی ماہرین کے مطابق، یہ قانون وقتی طور پر عوامی جذبات کو مطمئن کر سکتا ہے لیکن طویل مدتی بنیادوں پر معاشرتی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔

مستقبل کے خدشات

  1. اس قانون کے نفاذ کے بعد ہم جنس پرست افراد مزید خطرات اور جبر کا شکار ہو سکتے ہیں۔
  2. ملک میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی سرگرمیاں محدود ہو سکتی ہیں۔
  3. عالمی سطح پر برکینا فاسو کی شبیہ متاثر ہونے کا امکان ہے۔
  4. داخلی سطح پر یہ قانون معاشرتی کشمکش کو بڑھا سکتا ہے۔

نتیجہ

برکینا فاسو کا ہم جنس پرستی کے خلاف قانون نہ صرف اس ملک کی پالیسیوں کا عکس ہے بلکہ یہ افریقی معاشروں کی سوچ اور رویوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ معاملہ ایک بڑے سوال کو جنم دیتا ہے: کیا ریاستوں کو انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کو ترجیح دینی چاہیے یا اپنی روایتی اقدار اور ثقافتی اصولوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہییں؟

یقیناً، یہ موضوع عالمی سطح پر بحث کا متقاضی ہے۔ برکینا فاسو نے اپنے عوامی جذبات اور ثقافتی اقدار کو مقدم رکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے، مگر اس کے اثرات آنے والے برسوں میں ملکی سیاست، معیشت اور عالمی تعلقات پر ضرور نمایاں ہوں گے۔

Leave a Comment