پاکستان میں معاشرتی اور اخلاقی زوال کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ کبھی انسانیت کو شرمندہ کر دینے والے جرائم سامنے آتے ہیں تو کبھی دل دہلا دینے والے سانحات جن سے پوری قوم لرز اٹھتی ہے۔ حالیہ دنوں میں راولپنڈی کے علاقے ملک کالونی کے قبرستان میں ایسا اندوہناک اور ناقابلِ یقین واقعہ پیش آیا جس نے ہر سننے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس واقعے نے نہ صرف انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا کہ ہم کس سمت میں بڑھ رہے ہیں؟
واقعے کی تفصیل
راولپنڈی کے گرجہ روڈ کے قریب ملک کالونی کے قبرستان میں ایک غریب باپ نے دو روز قبل اپنی سات سالہ بیٹی علینہ ظفر کو بیماری کے باعث دفن کیا تھا۔ بچی کا انتقال کسی عام خاندانی المیے کی طرح تھا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ناقابلِ تصور ہے۔
بچی کے والد جب دوسرے دن قبرستان میں بیٹی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے پہنچے تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ بیٹی کی قبر کھدی ہوئی ہے، کفن باہر پھینکا ہوا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ کسی نے معصوم کے ساتھ قبر میں زیادتی کی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر والد پر غم و غصے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور وہ کلیجے پر ہاتھ رکھے دھاڑیں مار کر رونے لگے۔
پولیس کی کارروائی
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ قبرستان کو گھیرے میں لے لیا گیا اور شواہد اکٹھے کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ پولیس نے اعلان کیا کہ بچی کی قبر کشائی کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں تاکہ حقیقت کو سامنے لایا جا سکے۔
- قبر کشائی کا مقصد: اصل حقائق جانچنا اور یہ طے کرنا کہ آیا بچی کے ساتھ واقعی زیادتی کی گئی یا یہ محض افواہ ہے۔
- تحقیقات کا دائرہ کار: قبرستان کے اردگرد رہائش پذیر افراد، قبرستان کے رکھوالے اور شبہ کی بنیاد پر کئی افراد سے پوچھ گچھ شروع کر دی گئی۔
والد کا دکھ
اس واقعے کا سب سے کربناک پہلو بچی کے والد کی کیفیت ہے۔ ایک غریب شخص، جس نے پہلے ہی اپنی سات سالہ معصوم بیٹی کو بیماری کے باعث کھو دیا تھا، جب دوسرے دن قبر پر آیا تو اپنی آنکھوں سے بیٹی کی قبر کی بے حرمتی کا منظر دیکھنا اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
شہریوں کے مطابق والد کی چیخیں اور آہ و بکا سن کر قبرستان میں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ بار بار دہراتے رہے:
“میری بچی کو مرنے کے بعد بھی سکون نصیب نہ ہوا، یہ کیسا معاشرہ ہے؟”
عوامی ردعمل
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی۔ ملک کالونی اور اس کے گردونواح کے لوگ بڑی تعداد میں قبرستان پہنچ گئے۔ عوام کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
- شہریوں نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کر کے عبرتناک سزا دی جائے۔
- کئی افراد کا کہنا تھا کہ معاشرے میں اس قسم کے سنگین جرائم بڑھنے کی بڑی وجہ قانون کا کمزور ہونا اور انصاف میں تاخیر ہے۔
- سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی تصاویر اور خبریں وائرل ہوئیں اور عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
سماجی و اخلاقی پہلو
یہ واقعہ محض ایک مجرمانہ حرکت نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک بچی جو قبر میں ابدی نیند سو رہی تھی، اس کے ساتھ درندگی نے یہ ثابت کر دیا کہ معاشرے میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو حیوانیت کی آخری حدوں کو بھی پار کر چکے ہیں۔
اہم سوالات
- کیا معاشرے میں خوفِ خدا بالکل ختم ہو گیا ہے؟
- کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں ناکام ہیں؟
- کیا والدین کے لیے اب اپنے مرے ہوئے بچوں کی قبروں کی حفاظت بھی ایک مسئلہ بن جائے گا؟
پولیس اور حکومتی اقدامات کی ضرورت
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تحقیقات کو جلد مکمل کیا جائے گا، مگر عوام یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ محض دعوے کافی نہیں۔ اس واقعے کے بعد حکومت اور پولیس کو چند عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
- قبرستانوں میں سکیورٹی بڑھائی جائے۔
- رات کے وقت پہرہ داری اور کیمروں کی تنصیب یقینی بنائی جائے۔
- ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کو کڑی اور فوری سزا دی جائے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت بن سکے۔
- عوام کو بھی ایسے حالات میں چوکنا رہنے اور مشکوک افراد کی نشاندہی کرنے کی ترغیب دی جائے۔
Also read :وسیم اکرم کا بابر اعظم کو فارم میں واپسی کے لیے بڑا مشورہ: کرکٹ دنیا میں نئی بحث چھڑ گئی
ماہرین کی رائے
سماجی ماہرین نے اس واقعے کو معاشرتی تنزلی کی انتہا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کسی قوم میں زندہ انسان تو دور، مرے ہوئے بچوں کی حرمت بھی محفوظ نہ رہے تو یہ تباہی کی واضح نشانی ہے۔
مذہبی اسکالرز نے کہا کہ اسلام میں قبروں کی حرمت کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے، اور ایسے فعل کو نہ صرف دنیاوی قانون کے تحت بلکہ شرعی اعتبار سے بھی سنگین ترین جرم تصور کیا جاتا ہے۔
قانونی پہلو
پاکستانی قوانین کے مطابق قبروں کی بے حرمتی ایک سنگین جرم ہے اور اس میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس کیس میں اگر بچی کے ساتھ زیادتی ثابت ہو جاتی ہے تو یہ نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی لحاظ سے بھی “انتہائی سنگین” مقدمہ ہوگا۔
میڈیا کا کردار
اس واقعے کے بعد میڈیا نے بھرپور رپورٹنگ کی، جس کے باعث یہ کیس قومی سطح پر موضوعِ بحث بن گیا۔ میڈیا پر عوامی دباؤ کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ پولیس تحقیقات میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گی اور اصل ملزم ضرور گرفتار ہوں گے۔
نتیجہ
راولپنڈی کے قبرستان میں سات سالہ علینہ ظفر کی قبر کی بے حرمتی کا واقعہ ایک ایسا المناک سانحہ ہے جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ محض ایک غریب باپ کا ذاتی دکھ نہیں بلکہ پورے معاشرے کے ضمیر پر بوجھ ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر یہ سوچیں کہ ایسے گھناؤنے واقعات کی روک تھام کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگر فوری اور سخت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رجحان مزید بڑھ سکتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
اہم نکات کا خلاصہ
- راولپنڈی ملک کالونی میں 7 سالہ بچی کی قبر کی بے حرمتی۔
- والد نے دوسرے دن قبر پر آ کر واقعہ دیکھا۔
- پولیس موقع پر پہنچی اور قبر کشائی کی تیاری کی۔
- عوام اور سوشل میڈیا پر شدید غم و غصہ۔
- سماجی ماہرین اور علماء نے اسے اخلاقی تنزلی کی انتہا قرار دیا۔
- عوام کا مطالبہ: ملزمان کو عبرتناک سزا دی جائے۔