پاکستانی معاشرے میں ایسے اندوہناک واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں جو نہ صرف خاندانوں بلکہ پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والا واقعہ بھی انہی سانحات میں سے ایک ہے جہاں ایک ماں نے اپنی ہی اولاد کو قتل کر دیا۔ یہ لرزہ خیز واقعہ ہر سننے والے کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ اس کیس کی سب سے بھیانک پہلو وہ ویڈیو کال ہے جو اس عورت نے اپنے والدین کو بچوں کے قتل کے بعد کی، اور جس میں اس نے ایسے انکشافات کیے جنہوں نے ہر شخص کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔
واقعے کی جھلک
واقعہ اس وقت پیش آیا جب ادیبہ نامی خاتون نے اپنے ہی معصوم بچوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بچوں کی چیخیں اور معصومیت اس بربریت کو نہ روک سکیں۔ بعد ازاں، اس نے نہ صرف اپنے جرم کو چھپانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس پر والدین کو ویڈیو کال کر کے سب کچھ تسلیم بھی کیا۔
ویڈیو کال میں والدین سے مکالمہ
ذرائع کے مطابق، بچوں کے قتل کے فوراً بعد ادیبہ نے سب سے پہلے اپنے والدین کو کال کی۔ ویڈیو کال کے دوران اس کے الفاظ لرزہ خیز تھے۔ اس نے کہا:
- “میں نے وہ کر دیا جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔”
- “میرے بچوں کو اب سکون مل گیا ہے۔”
- “اب مجھے کوئی نہیں روک سکتا، یہ فیصلہ میں نے خود کیا ہے۔”
یہ مکالمے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ اس وقت شدید ذہنی دباؤ اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار تھی۔
بچوں کے قتل کی وجوہات
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ادیبہ گھریلو مسائل اور رشتوں میں تناؤ کی وجہ سے سخت ذہنی دباؤ میں تھی۔ کچھ نکات درج ذیل ہیں:
- شوہر سے اختلافات – ذرائع کے مطابق، شوہر اور بیوی کے درمیان مسلسل جھگڑے اور ناچاقیاں رہتی تھیں۔
- معاشی دباؤ – گھر کے اخراجات اور مالی مسائل نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔
- تنہائی اور ذہنی بیماری – ادیبہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار رہی، جسے بروقت سمجھا نہیں گیا۔
- سماجی دباؤ – معاشرتی رویوں اور خاندان کی مداخلت نے بھی اس کے رویے پر اثر ڈالا۔
ماں کے لرزہ خیز انکشافات
پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں ادیبہ نے تسلیم کیا کہ:
- اسے لگتا تھا کہ اس کے بچے دنیا کے دکھ سہنے کے قابل نہیں ہیں۔
- وہ چاہتی تھی کہ ان کے ساتھ ہونے والے مستقبل کے مسائل سے بچا لے۔
- وہ کئی دنوں سے اس منصوبے پر سوچ رہی تھی اور بالآخر قدم اٹھا لیا۔
یہ انکشافات اس بات کی علامت ہیں کہ ذہنی دباؤ اور بیماری کس حد تک انسان کو اندھے فیصلے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
سماجی اور نفسیاتی پہلو
یہ واقعہ صرف ایک گھریلو جھگڑے یا ذاتی مسئلے کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی مجموعی کمزوریوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
- ذہنی صحت پر توجہ کی کمی
ہمارے معاشرے میں ڈپریشن اور ذہنی بیماری کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ محض کمزوری یا وہم ہے۔ - خواتین کی تنہائی اور دباؤ
گھریلو مسائل میں پھنسی ہوئی خواتین اکثر کسی کو اپنا دکھ بیان نہیں کر پاتیں، جس کے باعث وہ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتی ہیں۔ - خاندانی دباؤ اور مداخلت
بے جا مداخلت، رشتوں میں تلخیاں اور سماجی دباؤ کسی بھی فرد کو انتہائی قدم پر مجبور کر سکتا ہے۔
Also read :پی سی بی کی ہدایات: نوجوان کھلاڑی منیجرز سے زیادہ نہ الجھیں، بابر، رضوان اور شاہین کی مثالیں پیش
بچوں کے قتل پر معاشرتی ردعمل
یہ واقعہ سامنے آتے ہی پورے علاقے میں غم اور صدمے کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ حیران تھے کہ ایک ماں، جو بچوں کے لیے سب سے بڑی پناہ ہوتی ہے، وہی قاتل کیسے بن گئی؟
- سماجی حلقوں نے کہا کہ یہ واقعہ ذہنی بیماریوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔
- علما نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ والدین کو ہمیشہ صبر اور دعا کے ساتھ مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔
- عام عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسے کیسز میں نفسیاتی مسائل پر فوری توجہ دی جائے۔
پولیس کی تحقیقات
پولیس نے واقعے کے بعد ادیبہ کو حراست میں لے لیا اور اس کے بیانات قلمبند کیے۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق:
- یہ واقعہ پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔
- جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔
- نفسیاتی ماہرین سے بھی مشاورت کی جائے گی تاکہ اصل وجوہات سامنے لائی جا سکیں۔
ماہرین کی رائے
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ذہنی صحت کو نظر انداز کرنا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
- ڈپریشن اور ذہنی بیماری میں مبتلا افراد کو فوری طبی اور نفسیاتی مدد ملنی چاہیے۔
- فیملی اور سماج کو چاہیے کہ ایسے افراد کو تنہا نہ چھوڑیں۔
- حکومت کو نفسیاتی مراکز اور کونسلنگ کو عام کرنا ہوگا۔
سبق اور احتیاطی تدابیر
اس واقعے سے کئی سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں:
- ذہنی دباؤ میں مبتلا افراد کو نظر انداز نہ کریں۔
- خاندانی تنازعات کو گفت و شنید اور مشاورت سے حل کریں۔
- سماج کو ایسے مسائل پر بات کرنے کی جرات پیدا کرنی ہوگی۔
- نفسیاتی مدد کو عام اور سستا بنایا جائے۔
ادیبہ کا یہ لرزہ خیز واقعہ نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک سبق ہے۔ بچوں کا قتل ماں کے ہاتھوں ہونا سب سے بڑا سانحہ ہے جس نے ہر دل کو غمگین کر دیا۔ اس واقعے نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر وقت پر کسی کی ذہنی کیفیت کو سمجھا جائے، تو شاید ایسے اندوہناک واقعات سے بچا جا سکے۔