Advertisement

آزادی اظہار کا غلط استعمال برداشت نہیں کیا جائے گا: پی ٹی اے کی سخت وارننگ

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) نے آزادی اظہار کے نام پر ہونے والی غلط استعمالات کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کہا ہے کہ یہ بنیادی حق ضرور ہے، مگر اس کا استعمال قانون شکنی، مذہبی دل آزاری، فحاشی، جعلی خبروں یا نفرت انگیزی پھیلانے کے لیے نہیں کیا جا سکتا ۔

Advertisement

۱. PTA کی بیان کردہ وجوہات اور تشویش

پی ٹی اے نے اپنے بیان میں تین مرکزی خطرات کی نشاندہی کی:

  • مذہبی جذبات کی توہین: مذہبی شخصیات یا عقائد کی توہین کرنے والے افراد کی نشاندہی کی جائے گی، اور انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
  • نقلی بیانیے و جعلی خبریں: ایسے عناصر جو سوشل میڈیا یا آزادی اظہار کے نام پر جھوٹے یا تخریبی بیانیے پھیلاتے ہیں، ان کے خلاف مضبوط کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔
  • قوم، سلامتی اداروں اور افواج کے خلاف نفرت پھیلانا: یہ پیغام بھی واضح کیا گیا کہ قومی اداروں کے خلاف اظہار رائے کا استعمال دہشت گردی یا نفرت انگیزی کے زمرے میں آئے گا اور اس ناقابلِ برداشت ہے ۔

۲. قانونی فریم ورک: PECA 2016

یہ تمام اقدامات پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (PECA) کے تحت کیے جائیں گے۔ پی ٹی اے واضح کرتی ہے کہ:

  • PECA کی دفعات کو پوری قوت سے نافذ کیا جائے گا تاکہ سوشل میڈیا اور آن لائن مواد پر کنٹرول برقرار رہے ۔
  • اس کے تحت جعلی خبریں، فحش مواد، غیر اخلاقی بیانیے، مذہبی توہین، افواجِ پاکستان یا سلامتی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا جرم تصور کیا جائے گا اور قصوروار افراد کو سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
  • پی ٹی اے کا اعلان ہے کہ ڈیجیٹل نظم و ضبط اور قومی مفادات کا تحفظ ان کے اولین اہداف ہیں ۔

Also read : پر اسرار حالات میں خاتون کی نعش برآمد: میرپور رڑاہ بڑجن روڈ پر خوف و ہراس کی فضا

۳. ریاست کا بیانیہ: آزادی اظہار بمقابلہ نظم و ضبط

پی ٹی اے کی موجودہ پالیسی ایک مخصوص فلسفیانہ توازن پر مرکوز ہے:

  • آزادی اظہار ایک بنیادی آئینی حق ہے، لیکن جب اس کا استعمال قانون شکنی, فحاشی, یا نفرت انگیزی کے لیے ہو رہا ہو، تو قانون کی حدود واضح طور پر نافذ کی جائیں گی ۔
  • اتھارٹی کا واضح موقف ہے: حق صرف اظہارِ رائے کا ہے، مگر مظاہرہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کا مواد قابل قبول ہے۔
  • ایک طرف ریاست عوام کو آزادی اظہار کی کھلی گنجائش دیتی ہے، دوسری جانب وہ سماجی ہم آہنگی اور اخلاقیات کے معیاروں کو برقرار رکھنے کے لیے مواد کی نگرانی بھی کرتی ہے۔

۴. ممکنہ اثرات: عوام، میڈیا، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز

a) عوام اور صارفین پر اثرات:

  • صارفین کو محتاط رہنا ہو گا جب وہ ریلیجن، قومی اداروں، یا حساس موضوعات پر آن لائن تبصرہ کریں۔
  • فرضی بیانیے یا فحش مواد شیئر کرنے کی صورت میں ان سے قانونی کارروائی متوقع ہے۔
  • آزادی اظہار کا غلط استعمال اب ذاتی ذمہ داری کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے۔

b) ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز:

  • پی ٹی اے ممکنہ طور پر پلیٹ فارم آپریٹرز کو ذمہ دار ٹھہرائے گا اگر وہ نفرت انگیز یا غلط معلومات کو بلاک کرنے میں ناکام ہوں۔
  • انتظامیہ کے مطابق، صفحات یا صارفین جو PECA کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کے خلاف محتاط اور قانونی عمل شروع کیا جائے گا۔
  • اس کے نتیجے میں خود تنظیمیں اور پلیٹ فارم ڈویلپمنٹ کے نئے رہنما خطوط اپنانے پر مجبور ہو سکتی ہیں۔

۵. تضاد: اظہارِ رائے بمقابلہ قانونی حدود

یہ پالیسی کئی اہم سوالات پیدا کرتی ہے:

  • آیا ریاست کے پاس آن لائن بیانیے پر کنٹرول قائم کرنے کا حق ہے؟
    پی ٹی اے کا موقف ہے کہ جب اظہار رائے سبھی کے حق کے ساتھ ذمہ داری بھی لاتا ہے تو بعض حدود لازمی ہیں۔
  • کیا یہ اقدام خود سنسرشپ یا آزادی اظہار پر قدغن نہیں؟
    ریاست جواب دیتی ہے: نہیں، جب تک قوانین قانونی دائرہء اختیار میں ہیں، یہ ایک ذمہ دارانہ اقدام ہے تاکہ نہ صرف اداروں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی تحفظ ملے۔

۶. تقابلی جائزہ: بین الاقوامی خطوط پر آزادی اظہار

بین الاقوامی انسانی حقوق و معاہدات میں آرٹیکل 19 (آزادی اظہار) حق کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 20 (نفرت انگیزی کی ممانعت) کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر مذہب یا نسل کی بنیاد پر نفرت انگیزی کو منظم کرنا بین الاقوامی سطح پر ضروری سمجھا گیا ہے ۔

  • اقوام متحدہ کا نجی بیانیے یا نفرت انگیزی کے خلاف موقف بھی محدود آزادی کے حق میں ہے جب اسے تشدد یا نفرت پھیلانے کے مقصد سے استعمال کیا جا رہا ہو۔
  • یورپی یونین کے قوانین میں بھی مخصوص نفرت انگیز مواد کی پابندی کی جاتی ہے، جبکہ امریکہ میں آزادی اظہار نسبتا زیادہ کی جاتی ہے مگر True Threats یا Incitement جیسے معاملات میں پابندیاں عائد ہیں ۔

پاکستان کی پی ٹی اے پالیسی اس بین الاقوامی رجحان کے عین مطابق ہے: آزادی اظہار کا حق دیا گیا مگر اس کے استعمال کو شرائط اور حدود میں رکھا گیا۔

۷. نتیجہ اور مستقبل کا راستہ

پی ٹی اے کی یہ سخت وارننگ ایک انتہائی محتاط اور ذمہ دارانہ پالیسی کا عکاس ہے، جو ڈیجیٹل دنیا میں ریاست، سوشل میڈیا اور عوام کے درمیان حقوق و ذمہ داریوں کا توازن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اہم نکات:

  • آزادی اظہار بنیادی حق ہے، مگر غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال قابلِ قبول نہیں۔
  • PECA 2016 کو بھرپور طریقے سے نافذ کرنے کے وعدے کے ساتھ، پی ٹی اے نے خود کو ڈیجیٹل نظم و ضبط کا ضامن قرار دیا ہے۔
  • عوام، میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانا ہو گا۔
  • اگرچہ یہ اقدام ظاہر میں سخت محسوس ہوتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی حقوق و ہدایات کے عرف کے مطابق نقصان پہنچانے والی نفرت انگیزی پر پابندی لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

Leave a Comment