Advertisement

پر اسرار حالات میں خاتون کی نعش برآمد: میرپور رڑاہ بڑجن روڈ پر خوف و ہراس کی فضا

میرپور (نمائندہ خصوصی) – میرپور کے نواحی علاقے رڑاہ بڑجن روڈ پر ایک خاتون کی پر اسرار حالات میں نعش برآمد ہوئی ہے، جس سے علاقہ میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو گئی ہے۔ مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش کو قبضے میں لے لیا اور تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ابھی تک خاتون کی شناخت اور موت کی وجوہات سامنے نہیں آ سکی ہیں، تاہم ابتدائی شواہد پر پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ایک “مشکوک موت” ہو سکتی ہے۔

Advertisement

واقعہ کی تفصیل

پیر کی صبح کے وقت جب کچھ مقامی افراد روزمرہ کے معمولات کے لیے گھروں سے نکلے تو انہوں نے سڑک کنارے ایک عورت کی لاش پڑی دیکھی۔ اطلاع فوری طور پر پولیس کو دی گئی۔ پولیس اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور لاش کو میرپور ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ڈاکٹروں کی ابتدائی رپورٹ میں موت کی وجہ فوری طور پر واضح نہ ہو سکی۔

مقتولہ کی شناخت اور حالات

تاحال خاتون کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ وہ درمیانی عمر کی لگتی ہے، جس کی عمر اندازاً 30 سے 35 سال کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔ خاتون نے عام دیہاتی لباس پہن رکھا تھا اور اس کے جسم پر کسی قسم کے زخم یا چوٹ کے نشانات بظاہر نظر نہیں آ رہے تھے، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ مکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی موت کی اصل وجہ کا پتہ چلے گا۔

مقامی لوگوں کا ردعمل

واقعے کے بعد علاقہ مکینوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے رات کے وقت سڑک کے قریب کسی قسم کی چیخ و پکار سنی تھی، لیکن اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ کچھ افراد کے مطابق، یہ خاتون اس علاقے سے نہیں لگتی، اور ممکن ہے کہ لاش کو کہیں اور قتل کرنے کے بعد یہاں لا کر پھینکا گیا ہو۔

پولیس کا مؤقف

میرپور پولیس کے ترجمان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ “ہم اس واقعے کو پوری سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی جانچ بھی کی جا رہی ہے اور قریبی دیہات میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں تاکہ مقتولہ کی شناخت اور واقعے کی نوعیت معلوم کی جا سکے۔”

پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ قریبی علاقوں میں رہنے والوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اگر وہ خاتون کو پہچانتے ہوں یا کسی مشتبہ شخص کی نقل و حرکت دیکھی ہو تو پولیس کو فوری اطلاع دیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے پر بھرپور ردعمل دیکھنے کو ملا۔ شہریوں نے پولیس اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور اگر یہ قتل ہے تو مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ایک مقامی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے لکھا:

“عورتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ ہمیں ایک محفوظ معاشرہ چاہیے، جہاں خواتین آزادی سے زندگی گزار سکیں۔”

ممکنہ زاویے

تاحال پولیس نے کسی قسم کی تصدیق نہیں کی کہ یہ قتل ہے، خودکشی یا قدرتی موت۔ تاہم ماہرین کے مطابق، چونکہ لاش کھلے عام سڑک کے کنارے ملی ہے اور کسی قسم کے شناختی کاغذات یا ذاتی اشیاء موقع پر نہیں ملیں، اس لیے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسے شناخت چھپانے کی نیت سے یہاں پھینکا گیا ہو۔

Also read :سابق امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے بیٹے بیرن ٹرمپ 19 سال کی عمر میں انتقال کر گئے

خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد، اغوا، اور قتل جیسے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ صرف رواں سال کے دوران ملک بھر میں درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں خواتین کو پر اسرار حالات میں قتل یا غائب کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ خواتین کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جائے۔

تحقیقات کا مستقبل

پولیس ذرائع کے مطابق، وہ اس کیس کو سنجیدگی سے لے کر تمام ممکنہ پہلوؤں سے تفتیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا، لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ جلد ہی اہم پیش رفت کی توقع ہے۔ لاش کی شناخت کے لیے نادرا سے بھی مدد لی جا رہی ہے، تاکہ فنگر پرنٹس اور چہرے کی شناخت کے ذریعے معلوم کیا جا سکے کہ خاتون کون تھی اور کہاں سے تعلق رکھتی تھی۔

عوامی مطالبات

علاقے کے لوگوں اور سوشل میڈیا صارفین نے حکومت اور مقامی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ:

  1. علاقے میں سٹریٹ لائٹس اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں۔
  2. خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔
  3. مجرموں کو جلد از جلد قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔
  4. عوام میں آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ مشتبہ سرگرمیوں کی فوری اطلاع دیں۔

ماہرین کی رائے

جرم اور تفتیش کے ماہرین کے مطابق، ایسے کیسز میں تیزی سے اور شفاف طریقے سے تفتیش نہ صرف مجرم کو گرفتار کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ آئندہ ایسے واقعات کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق، جب عوام کو انصاف ہوتا نظر آتا ہے تو اعتماد بحال ہوتا ہے اور جرم کی شرح میں کمی آتی ہے۔

حکومت کا ردعمل

تاحال ضلعی یا صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا، لیکن ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ آزاد کشمیر نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ پولیس حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر شفاف تفتیش کو یقینی بنائیں۔

یہ افسوسناک واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خواتین کی حفاظت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جب تک معاشرہ، ادارے، اور حکومت مل کر اقدامات نہیں کرتے، ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں مشتبہ حرکات پر نظر رکھیں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کریں تاکہ ایک محفوظ اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

Leave a Comment