Advertisement

افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن 31 اگست: رجسٹریشن ختم کرنے کے انتظامات مکمل

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان شہری پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے آباد ہیں۔ ان مہاجرین کی موجودگی نے جہاں پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سکیورٹی پر اثر ڈالا ہے، وہیں انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان نے ہمیشہ ان کی میزبانی کی۔ تاہم اب حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے سلسلے میں ایک حتمی قدم اٹھایا ہے اور واضح اعلان کیا ہے کہ 31 اگست تک افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی ہے۔

Advertisement

حکومتی ذرائع کے مطابق، افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کے حوالے سے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور اس ڈیڈ لائن کے بعد غیر قانونی طور پر موجود افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

پس منظر: افغان مہاجرین کی آمد اور پاکستان کا کردار

افغانستان میں 1979 میں سوویت یونین کے حملے کے بعد لاکھوں افغان شہری پاکستان منتقل ہوئے۔ اس کے بعد خانہ جنگی، طالبان کی حکومت، امریکی حملے اور پھر حالیہ سیاسی بحران نے افغان عوام کو ایک بار پھر ہجرت پر مجبور کیا۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس نے سب سے زیادہ افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ مختلف اندازوں کے مطابق اس وقت بھی 30 سے 40 لاکھ افغان شہری پاکستان میں مقیم ہیں، جن میں سے بڑی تعداد غیر رجسٹرڈ ہے۔

حکومت پاکستان کا فیصلہ

پاکستانی حکومت نے متعدد بار افغان حکومت اور عالمی برادری کو باور کرایا کہ پاکستان کی معاشی اور سکیورٹی صورتحال مزید افغان مہاجرین کو برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہے۔

اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ:

  • 31 اگست 2025 افغان مہاجرین کی واپسی کی آخری تاریخ ہوگی۔
  • رجسٹریشن کارڈز کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
  • تمام مہاجرین کو افغانستان واپسی کے لیے باقاعدہ نوٹس جاری کیا جا چکا ہے۔
  • غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کے خلاف فوری ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے۔

رجسٹریشن کا عمل اور اس کا خاتمہ

افغان مہاجرین کو پہلے “پروف آف رجسٹریشن (PoR)” کارڈز جاری کیے گئے تھے۔ یہ کارڈز انہیں قانونی تحفظ فراہم کرتے تھے۔ لیکن اب حکومت نے ان کارڈز کو منسوخ کرنے اور واپسی کے انتظامات مکمل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق:

  • نادرا اور دیگر متعلقہ ادارے ڈیٹا بیس کو اپ ڈیٹ کر چکے ہیں۔
  • رجسٹریشن مراکز پر نئی رجسٹریشن بند کر دی گئی ہے۔
  • غیر قانونی طور پر رہنے والوں کی نشاندہی کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

سکیورٹی خدشات

پاکستانی حکام کے مطابق افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرائم، اسمگلنگ، اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس میں استعمال ہو رہی ہے۔

  • متعدد بار ایسے شواہد سامنے آئے کہ دہشت گرد افغان کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔
  • اس کے علاوہ شناختی کارڈز اور پاسپورٹ جعلسازی میں بھی افغان گروہ ملوث پائے گئے۔
  • پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑھتے ہوئے جرائم اور منشیات کے کاروبار کو بھی مہاجرین سے جوڑا جاتا رہا ہے۔

ان ہی وجوہات کی بنا پر حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب واپسی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

افغان عوام اور مہاجرین کا ردعمل

کئی افغان مہاجرین نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کچھ خاندان دہائیوں سے پاکستان میں آباد ہیں اور ان کے بچے یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے واپسی ان کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔

دوسری طرف کچھ افغان شہریوں نے واپسی کو خوش آئند قرار دیا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے وطن میں رہ کر نئی زندگی کا آغاز کریں۔

عالمی برادری اور اقوام متحدہ کا کردار

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) اور دیگر عالمی تنظیموں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ اس عمل کو انسانی ہمدردی کے ساتھ انجام دیا جائے۔

  • عالمی تنظیموں نے کہا ہے کہ مہاجرین کو باعزت اور محفوظ طریقے سے واپس بھیجا جانا چاہیے۔
  • اقوام متحدہ افغانستان میں واپس جانے والوں کے لیے ریلیف پیکج تیار کر رہی ہے۔
  • تاہم پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اب مزید توسیع نہیں دی جائے گی۔

Also read :کامران اکمل کا بیان — بابر اعظم اور محمد رضوان کے ڈراپ ہونے پر بڑا ردعمل

معیشت پر اثرات

مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان کی معیشت پر بوجھ ڈالا ہے:

  • تعلیم اور صحت کے شعبے پر دباؤ بڑھ گیا۔
  • روزگار کے مواقع پاکستانی شہریوں سے چھن کر مہاجرین کو ملتے رہے۔
  • مہاجرین کی موجودگی سے ہاؤسنگ اور انفراسٹرکچر پر بھی دباؤ آیا۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی واپسی کے بعد پاکستانی عوام کو ریلیف ملے گا۔

انسانی پہلو

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان پر بوجھ بڑھ چکا ہے، لیکن لاکھوں افغان خاندانوں کے لیے اچانک واپسی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان کے بچے پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، بہت سے کاروبار چلا رہے ہیں اور دہائیوں سے یہی ان کا وطن بن چکا ہے۔

اسی لیے ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ اس واپسی کے عمل کو مرحلہ وار مکمل کیا جائے تاکہ انسانی المیے سے بچا جا سکے۔

مستقبل کے امکانات

31 اگست کی ڈیڈ لائن کے بعد پاکستان میں بڑی تبدیلی متوقع ہے۔

  • ایک طرف حکومت کو ریلیف ملے گا کہ غیر قانونی آبادی کم ہو گی۔
  • دوسری طرف افغانستان کو لاکھوں شہریوں کی واپسی برداشت کرنا پڑے گی، جس کے لیے اسے بڑے اقدامات کرنا ہوں گے۔
  • عالمی برادری پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ افغانستان کی معاشی بحالی میں کردار ادا کرے تاکہ واپس جانے والے مہاجرین دوبارہ ہجرت پر مجبور نہ ہوں۔

پاکستان نے آخرکار افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے حتمی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ 31 اگست کے بعد مہاجرین کی رجسٹریشن ختم کر دی جائے گی اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

یہ فیصلہ ایک طرف پاکستان کی معیشت اور سکیورٹی کے لیے اہم ہے، تو دوسری طرف لاکھوں افغان خاندانوں کے لیے نئے چیلنجز بھی پیدا کرے گا۔

Leave a Comment