Advertisement

فیس بک پر تلخ کلامی کے بعد نوجوان کا قتل: سوشل میڈیا تنازعات کا خطرناک رُخ

لاہور — ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جب فیس بک پر ہونے والی تلخ کلامی نے جان لیوا صورت اختیار کر لی۔ لاہور کے علاقے گلشنِ راوی میں دو نوجوانوں کے درمیان سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث نے نہ صرف تعلقات کو بگاڑا بلکہ انجام کار ایک نوجوان کی جان لے لی۔ یہ افسوسناک واقعہ معاشرتی رویوں اور سوشل میڈیا کے استعمال پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر رہا ہے۔

Advertisement

واقعے کی تفصیل

پولیس کے مطابق، مقتول 19 سالہ احمد علی اور ملزم 21 سالہ زبیر خان ایک دوسرے کو فیس بک پر جانتے تھے۔ دونوں کے درمیان چند ہفتوں سے مختلف پوسٹس اور تبصروں پر تکرار چل رہی تھی۔ یہ تکرار ذاتی نوعیت اختیار کر گئی جب احمد نے زبیر کی ایک تصویر پر طنزیہ تبصرہ کیا۔ اس پر زبیر نے سخت جواب دیا اور دونوں کے درمیان الفاظ کی جنگ شروع ہو گئی۔

ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ یہ آن لائن جھگڑا ایک مشترکہ دوست کی پوسٹ سے شروع ہوا تھا جس میں ایک طنزیہ میم شیئر کی گئی تھی۔ زبیر نے اسے احمد پر نشانہ سمجھا جبکہ احمد کا مؤقف تھا کہ یہ محض مذاق تھا۔ تاہم، زبیر نے اسے توہین سمجھتے ہوئے غصے کا اظہار کیا۔

آمنے سامنے ملاقات اور قتل

پولیس رپورٹ کے مطابق، گزشتہ رات زبیر نے احمد کو ایک مقامی پارک میں “مسئلہ حل کرنے” کے بہانے بلایا۔ عینی شاہدین کے مطابق، دونوں کے درمیان زبانی تکرار دوبارہ شروع ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی دوران زبیر نے جیب سے چھری نکالی اور احمد پر حملہ کر دیا۔ احمد کو شدید زخمی حالت میں قریبی اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔

پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ملزم سے برآمد ہونے والا ہتھیار فرانزک لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

مقتول کے گھر کا ماحول

احمد کے گھر میں صفِ ماتم بچھا ہوا ہے۔ اس کی والدہ روتے ہوئے کہتی ہیں، “میرے بیٹے نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا، یہ سب ایک فیس بک کی بحث نے برباد کر دیا۔” احمد کے والد نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کو عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے۔

ملزم کا اعتراف

پولیس کے مطابق، دورانِ تفتیش زبیر نے اعتراف کیا کہ وہ کئی دن سے اس جھگڑے کو دل پر لے رہا تھا۔ اس نے بتایا، “مجھے لگتا تھا احمد سب کے سامنے میری تذلیل کر رہا ہے، میں نے برداشت نہیں کیا۔” تفتیشی افسر کے مطابق، ملزم نے یہ بھی کہا کہ اسے قتل کرنے کا ارادہ پہلے سے نہیں تھا لیکن غصے میں آکر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا۔

سوشل میڈیا اور تشدد

یہ واقعہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا پر ہونے والے معمولی اختلافات بھی بڑے تنازعات میں بدل سکتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فائزہ خان کہتی ہیں:
“سوشل میڈیا نے بات چیت کا انداز بدل دیا ہے۔ جب لوگ سامنے نہیں ہوتے، وہ زیادہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ الفاظ بعض اوقات ایسے زخم چھوڑ جاتے ہیں جو عملی زندگی میں خطرناک نتائج پیدا کرتے ہیں۔”

Also read :کرکٹر حیدر علی اور الزام عائد کرنے والی لڑکی کے درمیان جلد معاملات طے ہونے کا امکان

پولیس کی وارننگ

لاہور پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔ ترجمان کے مطابق،
“ہم والدین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ایک بے احتیاط جملہ یا تبصرہ کسی کی زندگی لے سکتا ہے۔”
پولیس نے یہ بھی کہا کہ اس کیس کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔

عوامی ردِعمل

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر صارفین نے غم و غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تبصروں اور ذاتی حملوں کے خلاف قوانین مزید سخت کیے جائیں۔ کئی صارفین نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ فیس بک جیسی بڑی کمپنیوں کو بھی ایسے تنازعات کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے چاہییں۔

ماہرین کی رائے

سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹ عمر قریشی کا کہنا ہے:
“پاکستان میں سائبر کرائم ایکٹ موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد کمزور ہے۔ اگر سوشل میڈیا پر ہونے والی دھمکیوں اور ہراسانی کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔”

سماجی تجزیہ کار سارہ مجید نے کہا:
“یہ واقعہ ایک علامتی کہانی ہے جو بتاتی ہے کہ معاشرہ کس تیزی سے عدم برداشت کا شکار ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو آن لائن اخلاقیات سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔”

سوشل میڈیا کے خطرات اور احتیاطی تدابیر

اس واقعے نے ایک بار پھر یہ حقیقت اجاگر کی ہے کہ سوشل میڈیا صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں نفرت، غصہ اور ذاتی دشمنی بھی جنم لے سکتی ہے۔ ماہرین درج ذیل احتیاطی تدابیر تجویز کرتے ہیں:

  1. الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں — ہر جملہ دوسروں پر اثر ڈال سکتا ہے۔
  2. غصے میں جواب نہ دیں — کسی کی توہین محسوس ہو تو بات چیت بند کر دیں۔
  3. پرائیویسی سیٹنگز کا درست استعمال — غیر ضروری لوگوں کو اپنی پوسٹس تک رسائی نہ دیں۔
  4. آن لائن تنازع کو آف لائن تشدد میں نہ بدلیں — مسائل کو بات چیت اور ثالثی سے حل کریں۔
  5. والدین کی نگرانی — بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر وقتاً فوقتاً نظر ڈالیں۔

حکومت اور پالیسی سازوں کے لیے پیغام

یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ پالیسی سازوں کو آن لائن جھگڑوں اور دھمکیوں کے خلاف مؤثر قانون سازی کرنی ہوگی۔ اگرچہ پاکستان میں “پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ” (PECA) موجود ہے، مگر اس پر عمل درآمد میں کمی ہے۔ اس واقعے کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوامی آگاہی مہمات چلائی جانی چاہییں تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ سوشل میڈیا پر لکھی گئی بات بھی قانونی کارروائی کا باعث بن سکتی ہے۔

نتیجہ

احمد علی کا قتل محض ایک فرد کی جان کا نقصان نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرتی مزاج کا آئینہ ہے۔ ایک آن لائن بحث نے دو خاندان برباد کر دیے — ایک کا بیٹا قبر میں، دوسرا جیل میں۔ یہ سانحہ یاد دلاتا ہے کہ الفاظ، چاہے وہ آن لائن ہوں یا آف لائن، ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

ہم سب کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کو اظہارِ رائے کے لیے استعمال کریں، نہ کہ نفرت اور تشدد کو بڑھاوا دینے کے لیے۔ معاشرتی شعور، قانونی عمل داری، اور آن لائن اخلاقیات ہی ایسے واقعات کی روک تھام کر سکتے ہیں۔

Leave a Comment