Advertisement

فٹ بال کی دنیا میں ہلچل مچانے والی پاکستانی نژاد برطانوی فٹبالرز: ’مجھے اپنی شناخت پر فخر ہے‘


فٹ بال کی عالمی دنیا میں برطانڈ پاکستانی نژاد فٹبالرز نے اپنی مہارت، حوصلہ افزا سفر اور مستقل پہچان کے ذریعے ایک نیا باب لکھا ہے۔ ان کھلاڑیوں نے نہ صرف انگلش کلبیئرز اور بین الاقوامی مقابلوں میں جگہ بنائی بلکہ اپنی ثقافتی اور نسلی شناخت پر فخر کا اظہار کیا ہے۔

Advertisement

۱۔ ذیـدان اِکبال: منچسٹر یونائیٹڈ کے لیے پہلی برطانوی ایشیائی

ذیـدان اِکبال برطانڈ منچسٹر کے ایک نوجوان ہیں جنہوں نے دسمبر ۲۰۲۱ میں منچسٹر یونائیٹڈ سے ڈیبیو کیا—وہ پہلے برطانوی ساؤتھ ایشیائی فٹبالر تھے جنہوں نے سنئر سطح پر کلب کے لیے کھیلتے ہوئے چیمپیئنز لیگ میچ کھیلایا ۔ انہوں نے سعودی ٹیم یانگ بوائز کے خلاف مقابلہ کیا، اور یہ لمحہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ برطانوی ایشیائی برادری کے لیے بھی ایک تاریخی نشانی تھا ۔

ذیـدان نے ایک انٹرویو میں کہا:

“I’m proud of being English, Pakistani and Iraqi.”

اس بیان نے ان کی قومی اور نسلی شناخت کے ساتھ تعلق کو واضح کیا اور یہ پیغام دیا کہ ایک ہی ساتھ مختلف ثقافتوں سے جڑا ہونا قابلِ فخر ہے۔

وہ PFA Asian Inclusion Mentoring Scheme سے وابستہ ہیں، جہاں نوجوان ایشیائی اسکالرز کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ ذیـدان نے سوشل میڈیا، زوم اجلاسوں اور PFA کے مختلف ایونٹس میں نوجوانوں کو حوصلہ افزائی کی ہے ۔

۲۔ زیش ریحمان: لیگ میں پہلی پہچان

زیش ریحمان بریڈفورڈ سٹی کے کپتان ہیں، جو برطانوی ایشیائی فٹبالرز کے لیے ایک متحرک مثال ہیں۔ اس نے فٹبال میں فرسٹ ایشیائی پاکستانی بنیاد رکھنے والے کھلاڑی کی حیثیت سے پرچم اٹھایا، فُلہم، QPR، Norwich، بلیک پول، اور برائٹن کے کلبز میں کھیلا اور بعد میں پاکستان کے لیے کھیلنا شروع کیا ۔

ریحمان نے ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی جو برطانوی ایشیائی نوجوانوں کو فٹبال کی دنیا میں آگے آنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

۳۔ کاشف صدیقی اور امجد اقبال: سہولیات اور خدمت

کاشف صدیقی نے آرسنل اور Wycombe Wanderers کی جوانی کی ٹریننگ حاصل کی اور پاکستان U23 اور سینئر ٹیموں کی نمائندگی کی ۔ انہوں نے Kashif Siddiqi Foundation بنائی تاکہ نوجوان برطانوی ایشیائیوں کو کھیل میں شامل کیا جا سکے، اور Kick It Out جیسے اینٹی‑نسلی تنظیموں کے ساتھ بھی کام کیا ۔

امجد اقبال، بریڈفورڈ کے رہنے والے، نے نیم‑پیشہ ورانہ سطح پر کھیلتے ہوئے پاکستان کے لیے پانچ میچز کھیلے ۔ وہ فٹبال کے ساتھ ساتھ ایک کیمسٹری لیکچرر بھی ہیں، اور انہوں نے مقامی لیول پر قائدانہ کردار ادا کیا۔

۴۔ جمی خان: بروقت نمائندگی کی مثال

جواد اختر “جمی” خان پہلے برطانوی نژاد کھلاڑی تھے جو پاکستان کے قومی ٹیم کے لیے کھیلنے کے لیے بیرون ملک سے منتخب ہوئے Wikipedia۔ انہوں نے ۱۹۸۹ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور یہ ایک سنگِ میل ثابت ہوا، جنہوں نے نہ صرف کھیل کے میدان میں بلکہ بعد ازاں FA کونسل اور نیشنل گیم بورڈ میں رکنیت حاصل کی۔

۵۔ Layla Banaras: خواتین کی فٹبال میں پہچان

Layla Banaras ایک نوجوان خاتون فٹبالر ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ انہوں نے برمنگھم سٹی W.F.C. اور بعد میں Wolverhampton Wanderers W.F.C. کے لیے کھیلتے ہوئے پاکستان خواتین کی قومی ٹیم میں شمولیت اختیار کی ۔ Layla نے جنوری ۲۰۲۳ میں پہلی مرتبہ FA کپ میں حصہ لیا، اور ایشیائی خواتین کے لیے نمایاں مثال بنیں۔

۶۔ موجودہ حالات: نمائندگی، چیلنجز اور تبدیلی

نمائندگی کی خامیاں

حالانکہ تقریباً ۷٪ برطانیہ کی آبادی جنوبی ایشیائی ہے، لیکن فٹبال کے اعلیٰ سطح پر ایشیائی نمائندگی بہت کم رہی ہے ۔ گوشواروں کے مطابق ۲۰۱۸‑۱۹ کے موسم تک صرف چار جنوبی ایشیائی کھلاڑی (نیل ٹیلر، مائیکل چوپڑا، حمزہ چودھری، زیش ریحمان) پریمیئر لیگ میں کھیل چکے تھے ۔

ایموشنل اور ساختی رکاوٹیں

Jhai Dhillon جیسے کھلاڑیوں نے سامنا کیا، جہاں انہوں نے کھیل کے دوران نسلی اہانت سنی مگر شکایات کرنے میں محدود محسوس کیا، کیونکہ “troublemaker” کے طور پر لیبل لگ جانے کا خوف تھا۔ اس طرح کی جابز اور اسکاؤٹنگ میں تعصبات ابھی تک باقی ہیں ۔

Also read : موٹر سائیکل والوں کے لیے ایک لاکھ روپے کیش حاصل کرنے کا سنہری موقع: بس ایک کام کرنا ہوگا

مثبت اقدامات

Professional Footballers’ Association (PFA) نے Asian Inclusion Mentoring Scheme (AIMS) چلائی، جس سے جنوبی ایشیائی کھلاڑیوں کو رہنمائی اور مواقع فراہم کیے گئے ہیں ۔ ۲۰۲۳ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ ایشیائی شناخت رکھنے والے کھلاڑیوں میں ۱۲.۶٪ اضافہ ہوا، اور اب ۶۳٪ اکیڈمیز میں ایشیائی کھلاڑی شامل ہیں (۲۰۲۱/۲۲ کے مقابلے میں) ۔

۷۔ پہچان پر فخر: کہانیاں اور احساس

ذیـدان اِکبال نے بارہا کہا کہ وہ “Proud Mancunian” ہیں، اور ساتھ ہی پاکستانی و عراقی شناخت پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں ۔

زیش ریحمان، کاشف صدیقی اور امجد اقبال جیسے کھلاڑیوں نے اپنے کردار میں اپنی شناخت کو نمایاں کیا—امید دلائی اور نئے راستے کھولے۔ ان نے یہی پیغام دیا کہ چونکہ آپ مختلف ثقافتی پس منظر سے ہو، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کم ہیں؛ بلکہ یہ آپ کی طاقت ہے۔

۸۔ مستقبل کے امکانات: حوصلہ افزائی اور سالوں کی تبدیلی

اب جب ذیـدان جیسے کھلاڑی پہلی مثال بن چکے ہیں، نوجوان نسل کے لیے خواب حقیقت بننا ممکن ہو گیا ہے۔ PFA، FA، اور دیگر ادارے مسلسل قدم اٹھا رہے ہیں تاکہ نشاندہی، اسکاؤٹنگ اور شمولیت کے راستے کھلیں

زیادہ نمائندگی وقت کے ساتھ ساتھ مؤثر ثابت ہوگی—یہ تبدیلی ۵ سے ۱۰ سال بعد نوجوانوں پر اثر ڈالے گی جیسا کہ اکیڈمیز میں ایشیائی کھلاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے Mancunian Matters۔

اختتامِ کلام

پاکستانی نژاد برطانڈ فٹبالرز نے نہ صرف فٹبال کے میدان میں اپنا مقام بنایا بلکہ اپنی ثقافتی شناخت پر فخر کے چٹان ثابت ہوئے ہیں۔ چاہے وہ ذیـدان اِکبال، زیش ریحمان، کاشف صدیقی کے فاؤنڈیشن کے ذریعے تبدیلی کا سفر، یا Layla Banaras کی خواتین فٹبال میں نمائندگی — یہ سب ایک ٹیم ورک، عزم اور مساوات کے سفر کا حصہ ہیں۔

Leave a Comment