Advertisement

پختونخوا میں 307 افراد جاں بحق: قدرتی آفات اور انتظامی ناکامی کا کربناک منظرنامہ

خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں میں آنے والی قدرتی آفات نے تباہی مچادی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق مختلف حادثات، بارشوں، سیلابی ریلوں اور زمین کھسکنے کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد 307 ہو گئی ہے۔ یہ تعداد نہ صرف ایک خوفناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ صوبہ قدرتی آفات کے سامنے کتنا غیر محفوظ ہے۔

Advertisement

جاں بحق افراد کی تعداد میں اضافہ کیسے ہوا؟

محکمۂ ڈیزاسٹر مینجمنٹ (PDMA) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے خیبر پختونخوا میں بارشوں کا سلسلہ جاری تھا جس کے نتیجے میں مختلف اضلاع میں شدید نقصانات ریکارڈ کیے گئے۔

  • سیلابی ریلوں میں درجنوں افراد بہہ گئے۔
  • کچے مکانات گرنے سے کئی خاندان ملبے تلے دب گئے۔
  • لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں کئی افراد کی زندگیاں ختم ہوئیں۔
  • دیہی علاقوں میں بروقت امداد نہ پہنچنے کے سبب بھی اموات میں اضافہ ہوا۔

سب سے زیادہ متاثرہ علاقے

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع درج ذیل ہیں:

  1. سوات – جہاں سیلابی ریلوں نے درجنوں دیہات بہا دیے۔
  2. دیر بالا اور دیر لوئر – لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات نے درجنوں جانیں لیں۔
  3. چترال – رابطہ سڑکیں کٹ جانے سے امدادی کاموں میں رکاوٹ۔
  4. کوہستان – مکانات تباہ اور کئی خاندان بے گھر ہو گئے۔
  5. نوشہرہ اور چارسدہ – دریائے کابل کے کنارے بستیاں ڈوب گئیں۔

Also read :شاہد آفریدی سمیت کھیلوں کی 10 شخصیات کیلئے سول اعزازات کا اعلان

زخمی اور بے گھر ہونے والے افراد

307 افراد کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد زخمی اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔

  • اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
  • کئی زخمی افراد کو فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث حالت نازک ہے۔
  • متاثرہ علاقوں میں خیمہ بستیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے مگر سہولیات ناکافی ہیں۔

مکانات اور انفراسٹرکچر کو نقصان

آفات نے صرف انسانی جانوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ مالی نقصان بھی شدید ہے۔

  • ہزاروں مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے۔
  • درجنوں پل اور سڑکیں سیلابی ریلوں میں بہہ گئیں۔
  • زرعی زمینوں اور کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
  • بجلی کے کھمبے اور ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم بھی تباہ ہو گئے، جس سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

عوامی ردعمل اور دکھ کا عالم

متاثرہ خاندانوں اور عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

  • جاں بحق افراد کے لواحقین کرب میں مبتلا ہیں۔
  • کئی متاثرین نے انتظامیہ پر تاخیر اور ناقص حکمت عملی کا الزام لگایا۔
  • عوام کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی منظم منصوبہ بندی۔

حکومت اور حکام کے بیانات

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا اور متاثرین کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا۔

  • جاں بحق افراد کے لواحقین کو مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان۔
  • زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے اسپتالوں میں خصوصی فنڈز مختص کیے گئے۔
  • متاثرہ علاقوں میں خوراک، خیمے اور ادویات پہنچانے کے لیے ریلیف آپریشن جاری۔

تاہم عوام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں اور انہیں دیر سے شروع کیا گیا۔

فوج اور ریسکیو اداروں کی کارروائیاں

فوج، ریسکیو 1122 اور دیگر ادارے امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔

  • ہیلی کاپٹرز کے ذریعے دور دراز علاقوں میں خوراک اور ادویات پہنچائی جا رہی ہیں۔
  • ریسکیو ٹیمیں لاپتہ افراد کی تلاش میں مصروف ہیں۔
  • کئی مقامات پر فوجی جوانوں نے مقامی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔

ماہرین کی رائے

ماہرین کا کہنا ہے کہ بار بار آنے والی قدرتی آفات صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ناقص منصوبہ بندی اور غیر معیاری انفراسٹرکچر کی وجہ سے بھی ہیں۔

  • دریاؤں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات بڑے نقصانات کی وجہ ہیں۔
  • زمین کھسکنے کے واقعات جنگلات کی کٹائی سے بڑھ گئے ہیں۔
  • حکومتی ادارے ہمیشہ عارضی ریلیف پر توجہ دیتے ہیں مگر مستقل حل تلاش نہیں کرتے۔

بین الاقوامی ردعمل

کچھ بین الاقوامی اداروں اور ممالک نے متاثرین کے لیے امداد کی یقین دہانی کرائی ہے۔

  • اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ ہنگامی ریلیف کے لیے پاکستان کی مدد کرے گی۔
  • دیگر ممالک کی این جی اوز نے خوراک، ادویات اور خیمے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

مستقبل کے لیے تجاویز

اس قسم کی آفات سے نمٹنے کے لیے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے چند تجاویز پیش کی ہیں:

  1. قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر۔
  2. فوری وارننگ سسٹم تاکہ عوام کو بروقت آگاہ کیا جا سکے۔
  3. ریسکیو اداروں کی استعداد کار بڑھانا۔
  4. درختوں کی کٹائی روکنے اور جنگلات لگانے کی پالیسی۔
  5. غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سخت اقدامات۔

عوامی توقعات

عوام کو امید ہے کہ حکومت محض وقتی ریلیف پر اکتفا نہیں کرے گی بلکہ ایسے اقدامات اٹھائے گی جن سے مستقبل میں انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔

  • متاثرین چاہتے ہیں کہ امدادی رقوم جلد از جلد ان تک پہنچائی جائیں۔
  • عوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ پختونخوا میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔

پختونخوا میں 307 قیمتی جانوں کا ضیاع ایک المیہ ہے جو نہ صرف قدرتی آفات بلکہ انسانی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کا بھی نتیجہ ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت وقتی اعلانات سے آگے بڑھ کر مستقل حل کی طرف قدم بڑھائے۔ اگر آج موثر حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو مستقبل میں بھی ایسے سانحات ہمارے لوگوں کی زندگیاں چھینتے رہیں گے۔

Leave a Comment