Advertisement

خوبصورت نوجوان لڑکی کا شادی کا جھانسہ: “سسرال” پہنچا تو ڈاکو نکلے!

کچے کے علاقے میں شہریوں کو لوٹنے کا نیا طریقہ سامنے آ گیا، خوبصورتی اور محبت کا فریب دے کر نوجوان لڑکی نے نوجوان کو شادی کا جھانسہ دیا، مگر اصل چہرہ کچھ اور ہی نکلا۔

Advertisement

رحیم یار خان کے قریب کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد نے واردات کا ایک نیا اور چالاک طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اس بار ان کے ہتھکنڈے میں ایک خوبصورت نوجوان لڑکی شامل تھی، جو محبت اور شادی کے خواب دکھا کر ایک شریف شہری کو اپنے جال میں لے آئی۔ نوجوان کو جب “سسرال” بلایا گیا، تو وہاں پھولوں کے ہار نہیں بلکہ بندوقوں کے دہانے اس کا استقبال کر رہے تھے۔

واقعے کی تفصیل

تفصیلات کے مطابق، کراچی کے رہائشی 28 سالہ دانش (فرضی نام) کی ایک خوبصورت لڑکی سے سوشل میڈیا پر دوستی ہوئی۔ روزمرہ بات چیت، میٹھے بول، اور مستقبل کے خوابوں نے یہ دوستی جلد ہی محبت میں بدل دی۔ لڑکی نے اپنا نام “عائشہ” بتایا اور خود کو رحیم یار خان کی رہائشی ظاہر کیا۔ چند ہفتوں کی بات چیت کے بعد عائشہ نے دانش کو شادی کی پیشکش کی اور کہا کہ اس کے والدین شادی کے لیے راضی ہیں، بس وہ لڑکے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

عائشہ نے دانش کو اپنے “سسرال” یعنی گھر آنے کی دعوت دی، اور شادی کے بعد کی زندگی کے حسین خواب دکھائے۔ سادہ لوح اور محبت میں اندھا ہو چکا دانش چند دن کی تیاری کے بعد رحیم یار خان کے نزدیک کچے کے علاقے میں پہنچ گیا، جہاں عائشہ نے ایک مقام پر اسے لینے کے لیے اپنے “کزن” بھیجے۔

سسرال نہیں، ڈاکوؤں کا اڈہ نکلا

جیسے ہی دانش دیے گئے مقام پر پہنچا، دو مسلح نوجوانوں نے اس کا موبائل، پیسے، اور سامان چھین لیا اور زبردستی اسے کچے کے اندر لے گئے۔ وہاں مزید افراد پہلے سے موجود تھے جنہوں نے دانش کو یرغمال بنا لیا اور اس کے اہل خانہ سے تاوان کا مطالبہ شروع کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ عائشہ نامی کوئی لڑکی اصل میں موجود ہی نہیں، بلکہ یہ ڈاکوؤں کی ایک منظم ٹیم تھی، جو سوشل میڈیا پر فرضی شناخت بنا کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہے۔

تاوان کی کال اور پولیس کی خاموشی

دانش کے اغوا کے بعد اس کے اہل خانہ کو ایک نمبر سے فون آیا، جس میں ڈاکوؤں نے 10 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر رقم نہ دی گئی تو دانش کو قتل کر دیا جائے گا۔ گھبراہٹ میں مبتلا خاندان نے فوری طور پر پولیس سے رابطہ کیا، مگر پولیس نے کچے کے علاقے میں آپریشن کرنے سے گریز کیا اور صرف تحقیقات کا وعدہ کر کے معاملے کو ٹالتی رہی۔

خوش قسمتی یا قدرت کی مہربانی

خوش قسمتی سے، دانش نے ایک لمحے میں ہوش مندی کا مظاہرہ کیا۔ جب اسے ڈاکو ایک خالی جھونپڑی میں رکھ کر دوسرے مقام پر منتقل کرنے لگے، تو وہ ایک موقع پر ان کے ہاتھ سے نکل کر قریبی جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔ کئی گھنٹوں کی بھاگ دوڑ اور چھپنے کے بعد وہ ایک قریبی دیہات میں پہنچا، جہاں مقامی افراد نے اس کی مدد کی۔ اس کے بعد پولیس اور اس کے گھر والوں کو اطلاع دی گئی، اور یوں دانش معجزانہ طور پر اپنی زندگی بچا کر واپس آ گیا۔

Also read : مسلسل 42 پروپوزل مسترد کرنیوالی خاتون کو امریکی شخص نے 7 برس انتظار کے بعد کیسے منایا؟

ڈاکوؤں کا نیا حربہ

یہ واقعہ نہ صرف افسوسناک بلکہ خطرناک بھی ہے، کیونکہ اب کچے کے ڈاکو محض سڑکوں پر وارداتیں کرنے کے بجائے، سوشل میڈیا جیسے جدید ذرائع کو استعمال کر رہے ہیں۔ فرضی پروفائل، تصاویر، اور محبت کے جال میں پھنسا کر وہ نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر کچے میں بلاتے ہیں، جہاں وہ ان کی زندگی اور خاندان کے پیسے دونوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

پولیس اور سیکیورٹی اداروں پر سوالیہ نشان

اس واقعے نے پولیس کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک طرف تو شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، دوسری جانب سیکیورٹی ادارے کچے کے علاقوں میں مؤثر کارروائی کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس بروقت کارروائی کرے تو ایسے گروہوں کو روکا جا سکتا ہے، مگر بدقسمتی سے بیشتر مقدمات میں پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

عوام کے لیے انتباہ

یہ واقعہ ہر اس شخص کے لیے وارننگ ہے جو سوشل میڈیا پر دوستی یا تعلقات قائم کرتا ہے۔ کسی بھی اجنبی پر اندھا اعتماد کرنا نہ صرف جذباتی دھچکہ دے سکتا ہے بلکہ جان کا خطرہ بھی بن سکتا ہے۔ خاص طور پر جب بات شادی جیسے سنجیدہ معاملے کی ہو، تو مکمل تحقیق، فیملی انوالو ہونا، اور ذاتی طور پر تصدیق ضروری ہے۔

سوشل میڈیا: سہولت یا خطرہ؟

جہاں سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، وہیں اس کے منفی پہلوؤں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس پلیٹ فارم پر جھوٹے پروفائل، جعلی تصاویر، اور دھوکہ دہی عام ہو چکی ہے۔ اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی کی خوبصورتی یا میٹھی باتوں کے پیچھے کیا راز چھپا ہو سکتا ہے، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔

اختتامیہ:

کچے کے ڈاکوؤں کا یہ نیا طریقہ انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔ عوام، خاص طور پر نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر بننے والے تعلقات کو بہت احتیاط سے دیکھیں، اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے مکمل تحقیق کریں۔ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ کچے کے علاقوں میں سخت ایکشن لے کر ان مجرموں کا قلع قمع کریں تاکہ کوئی اور دانش اس طرح کے جال میں نہ پھنسے۔

Leave a Comment